تمہارے خون کا رنگ دوسروں سے مختلف ہے اور نہ تمہارے بازو دو سے زیادہ ہیں۔ دنیا, جو امتحان کا کٹہرا بنا ہوا ہے، اس میں آپ کو جرمن ہونے کے دس اضافی نمبر نہیں دیے جا سکتے۔
پچھلے ایک عشرے تک پاکستان میں ریاستی وسائل یہ باور کروانے پر جھونک دیے گئے کہ عمران خان ایک دیوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اختیار دے دیا جائے تو وہ بلاؤں سے لڑتے لڑتے امر ہو جائے گا۔ یہ مختلف ہے، یہ صادق ہے، یہ برتر ہے، یہ امین ہے، اس کا شجرہ صاف ہے، اس کا نسب عالی ہے، یہ ماورائی ہے، یہ ناقابلِ یقین ہے، یہ کون و مکان سے آگے کا کوئی معاملہ ہے۔
ظاہر ہے، رہنماؤں میں وہ عظیم ہے تو ووٹروں میں ان کا ووٹر عظیم ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ لوگ عظمت کے ایک خاص طرح کے خبط میں مبتلا ہو گئے۔ ہم صاف اور اجلے لوگ ہیں، سچے اور کھرے لوگ ہیں، دامن نچوڑتے ہیں تو فرشتے وضو کرتے ہیں۔ انہوں نے کان لپیٹ لیے کہ کسی گنہگار کو سلام کا جواب ہی نہ دینا پڑ جائے۔ زبان پر احتیاطاﹰ زیتون پیل کے رکھتے تھے کہ کب کسی معزز شہری کی کاف لام کرنی پڑ جائے۔
ایک خاص کیفیت میں رہ رہ کر خان صاحب معرفت کے نامعلوم درجات کی طرف نکل گئے۔ لگتا تھا ابھی کسی قریب کی پہاڑی پہ چڑھ کے کوئی ایسا ویسا دعوی کر دیں گے۔ ریاست کو احساس ہوا کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ہمارے پالے ہوئے پورس کے ہاتھی بن رہے ہیں۔
چنانچہ ریاست نے کپڑے بدلنے کا فیصلہ کر لیا مگر یہ احساس بھی تھا کہ عالمی اتحادیوں کی طرح ہمارے اتحادیوں کو بھی ایک بڑے چیلنج کا سامنا رہے گا۔ جب خان صاحب کی حکومت نہیں رہے گی تو ان کے پیروکاروں کی ''ڈی نیازیفیکیشن‘‘ کس طرح کی جائے گی۔
اب ریاست نقاب بدل چکی ہے تو ایک طرف سیاسی چیلنج درپیش ہے اور دوسری طرف معاشی چلینج کا سامنا ہے۔ سیاسی چیلنج تو وہی جرمنی والا ہے کہ جو مینار پہ چڑھ گئے ہیں انہیں کیسے نیچے اتارا جائے۔ معاشی چیلنج میں ہمارا معاملہ البتہ کم و بیش فرانس والا ہو گیا ہے۔
لوئس شانزدہم کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو قوم کو آٹے روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس نے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے وزرائے خزانہ آگے پیچھے کرنا شروع کر دیے۔ ہر آنے والے وزیر خزانہ نے پچھلے والے سے زیادہ ٹیکس لاگو کر دیے۔
ٹھیک یہی معاملہ نئی حکومت کے بادشاہ کے سامنے بھی رہا۔ پٹرول اور اجناس کی قیمتیں شعیب اختر کی رفتار سے دوڑنے لگیں تو حکومت کو لگا کہ مسئلے کی اصل جڑ مفتاح اسماعیل کی ذات والا صفات ہے۔ کیونکہ وہ تو اس بات کا جواب بھی ڈھنگ سے نہیں دے پا رہے تھے کہ کوکومو کے پیک میں ہوا زیادہ اور کوکومو کم کیوں ہیں۔
چنانچہ حکومت اور ریاست نے مل کر فیصلہ کیا کہ دھتکارے ہوئے اسحاق ڈار کو اڑن طشتری پہ بٹھا کر واپس لے آتے ہیں۔ ڈار صاحب کو یہ کہہ کر واپس لایا گیا کہ وہ نمازیں بخشوائیں گے مگر انہوں نے رات دن محنت کر کے روزے بھی فرض کروا دیے۔ اب اس سے پہلے کہ ریاست یہ باور کرواتی کہ اس مہنگائی کی ذمہ داری اسحاق ڈار پر عائد ہوتی ہے، ڈار صاحب نے پہلے ہی ساری ذمہ داری خدائے بزرگ و برتر پر ڈال دی۔ جو ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔
فرانس جب آئے دن توپ خانے میں کوئی نئی توپ شامل کرتا تو لوگوں کو لگتا تھا جلد وہ دن آئیں گے، جب پیوش مشرا کے بقول ہم ایک بغل میں روٹی اور دوسری بغل میں چاند دبا کر گھومیں گے۔ مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کتنے ہزار انسانوں کا خون نچوڑا جائے تو ایک چٹانک بارود تیار ہوتا ہے۔ بغل میں چاند تو کیا دباتے، وہ جو بیکری سے ایک روٹی ملتی تھی، وہ بھی عید کا چاند ہو گئی۔ چنانچہ فرانسیسیوں کے خالی پیٹ انقلابات اور نظریات کی آماجگاہ بن گئے۔
مایوسی اس حد تک بڑھ گئی کہ لوگ مقدس جنگوں اور بشارتوں والی فتوحات تک سے لاتعلق ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب انہیں بتایا گیا کہ فرانس نے امریکہ کے ساتھ مل کر برطانیہ کو شکست دیدی ہے تو کندھے اچکا کر انہوں جواب دیا، سانوں کی؟
اس قدر مایوس کن حالات میں بھی بادشاہ اپنی کابینہ اور حرم میں نیک سے نیک اضافے کیے جا رہے تھے۔ یہ کچھ ویسا ہی منظر تھا جو ہم اپنی آنکھوں سے آج پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بازار سے روٹی غائب ہے اور بڑی خبر یہ ہے کہ حکومتی کابینہ کے ارکان کی تعداد خیر سے اکیاسی ہو گئی ہے۔
حالات جب حد سے گزرنے لگے تو فرانس کی شاہی کابینہ نے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فرمان جاری ہوا کہ شاہی اصطبل میں ملکی دفاع کے لیے کھڑے گھوڑوں کی تعداد آدھی کر دی جائے۔
یہ فرمان فرانس ہی کے مشہور مفکر والٹئیر نے سنا تو مسکرا کر بولے، شاہی اصطبل میں موجود گھوڑوں کی تعداد کم کرنے کی بجائے اگر شاہی محل میں موجود گدھوں کی تعداد آدھی کر دی جاتی تو شاید حالات کچھ بدل جاتے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔