کاؤچ سرفنگ: بنگلہ دیش کی مہماتی سیاحت کا نیا انداز
16 مارچ 2011ارجنٹائن سے آنے والے ہیوی میٹل موسیقی کے شائقین سے لے کر سکاٹ لینڈ کے پینشن یافتہ شہریوں تک، بنگلہ دیش کا 38 سالہ شہری جویانتا ہولادر اپنے ’بیک پیک‘ کے ساتھ سفر کرنے والے بہت سے غیر ملکی سیاحوں کی میزبانی کر چکا ہے، جو اس کے گھر میں صوفے پر سوتے ہیں۔
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے، جو عام طور پر کم خرچ سیاحت کرنے والے کسی مغربی سیاح کے پروگرام میں شامل نہیں ہوتا۔ لیکن ہولادر جیسے افراد کی وجہ سے اب یہ ملک ایسے غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول ہوتا جا رہا ہے، جن کے لیے وہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہی سب سے بڑی کشش ثابت ہوتی ہے۔
جویانتا ہولادر ڈھاکہ کا رہنے والا ہے اور ایک ٹیلی وژن پروڈیوسر ہے۔ اس نے ’تبادلے کی بنیاد پر میزبانی‘ کا ایک ایسا نیٹ ورک شروع کر رکھا ہے جسے وہ کاؤچ سرفنگ کا نام دیتا ہے اور یہ بنگلہ دیش کی سیاحت کا ایک ایسا مہماتی انداز ہے، جس کے سوا کسی غیر ملکی کے پاس بنگلہ دیش میں دراصل کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔
ہولادر نے ابھی حال ہی میں ڈھاکہ میں اپنے گھر پر فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ایک مرتبہ تو اس کے گھر میں قیام کرنے والا ایک غیر ملکی سیاح اس طرح کی سیاحت سے اتنا تنگ آ گیا تھا کہ اس نے کھل کر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس کا تجربہ انتہائی مایوس کن رہا ہے اور وہ دوبارہ کبھی بنگلہ دیش نہیں آئے گا۔ ہولادر کے بقول اگر کوئی غیر ملکی سیاح بنگلہ دیش کی سیاحت کرنا چاہے اور وہ بہت پر سکون اور پرتعیش سیاحت کی سوچ لے کر بنگلہ دیش آئے تو اسے اس لیے مایوسی ہو گی کہ بنگلہ دیش ایسی کوئی سیاحتی منزل بالکل نہیں ہے۔
جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت، تھائی لینڈ اور ویت نام ایسے ممالک ہیں، جہاں اپنا سامان کندھے پر ڈالے سفر کرنے والے ’بیک پیک‘ سیاحوں کو تقریباﹰ ہر طرح کی جدید سفری اور رہائشی سہولیات میسر ہوتی ہیں لیکن اب ان ملکوں میں بھی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ایسے میں بجٹ ٹورازم کے شائقین کو جو کچھ بنگلہ دیش میں میسر آتا ہے، وہ کم خرچ اور ایک اچھا متبادل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایشیا کی سیاحت کا ایک بالکل مختلف رنگ بھی لیے ہوئے ہوتا ہے۔
مثلاﹰ Couch Surfing جیسے امکانات کے ذریعے بنگلہ دیش میں کسی بھی غیر ملکی سیاح کو کسی اجنبی کے گھر میں ایک صوفے پر بغیر کسی معاوضے کے شب بسری کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی نہیں اگر کوئی چاہے تو وہ صرف ایک امریکی ڈالر کے عوض ڈھاکہ کی بہترین بریانی کی ایک پلیٹ بھی کھا سکتا ہے اور اگر کوئی پسند کرے تو درمیانی درجے کے کسی ہوٹل میں دس امریکی ڈالر سے بھی کم قیمت پر رات بھی گزاری جا سکتی ہے۔ یہی وہ پرکشش عوامل ہیں جن کی سستی اور مہماتی نوعیت کسی بھی غیر ملکی سیاح کو اس طرح بنگلہ دیش کھینچ لاتی ہے کہ وہ خود کو ’کم خرچ بالا نشین‘ سمجھنے لگتا ہے اور وہ بھی بجا طور پر۔
Lonely Planet نامی ادارے کے بنگلہ دیش کے بارے میں سیاحتی مضامین لکھنے والے مشہور مصنف سٹوارٹ بٹلر کہتے ہیں کہ اکثریتی طور پر مسلم آبادی والا ملک بنگلہ دیش ایک ایسا معاشرہ ہے، جہاں غیر ملکی سیاحوں، خاص کر خواتین کے لیے رہائش کی مناسب سہولیات کی ناکافی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن یہی بات تھوڑے بجٹ میں غیر ملکی سیاحت کرنے والے افراد کے لیے بنگلہ دیش کو بہت پر کشش بھی بنا دیتی ہے۔
سٹوارٹ بٹلر کے مطابق بنگلہ دیش کی سیاحت حقیقتاﹰ ایک بڑا ایڈوینچر ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ سن 2000 میں 160 ملین کی آبادی والے اس ملک کا کسی بھی وجہ سے سفر کرنے والے غیر ملکیوں کی کل تعداد دولاکھ سے بھی کم رہی تھی۔ لیکن سن 2009ء تک یہ صورت حال اتنی بدل چکی تھی کہ صرف سیاحت کی غرض سے اس جنوبی ایشیائی ملک کا سفر کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد دو لاکھ 67 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔
بنگلہ دیش ٹور آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر توفیق الدین احمد کے مطابق پہلے کئی غیر ملکی یہ سمجھتے تھے کہ بنگلہ دیش شاید بھارت ہی کا کوئی حصہ ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ’’آج صرف تفریحی سیاحت کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں سالانہ دس فیصد سے زائد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین