کابل: لگژری ہوٹل پر طالبان کا قبضہ ختم
29 جون 2011افغان وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل کے اس لگژری ہوٹل پر حملہ کرنے والے تمام مسلح افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ مجموعی طور پر چھ حملہ آور تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے تفصیلات جلد ہی جاری کر دی جائیں گی۔
حکومتی اہلکاروں اور غیر ملکیوں میں مقبول اس ہوٹل پر ہونے والے حملے میں ابھی تک ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں دس افراد ہلاک ہوئے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں چھ شہری مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک شدگان ہوٹل کے ملازم تھے۔ حملہ آوروں کے خلاف آپریشن میں افغانستان میں تعینات نیٹو اتحادی افواج نے ہیلی کاپٹروں کا استعمال بھی کیا۔
طالبان باغیوں کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کے مطابق یہ حملہ دراصل غیر ملکیوں پر کیا گیا ہے۔ موقع پر موجود صحافیوں کے بقول دو دھماکے سنے گئے جبکہ فائرنگ کی آوازیں فضا میں گونجتی رہیں۔
حملے کے وقت ہوٹل میں موجود ایک شخص سید حسین نے اے ایف پی کو بتایا،’ میں نے دیکھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پانچ یا چھ افراد ہوٹل میں داخل ہوئے اور انہوں نے فائرنگ شروع کر دی‘۔ سید حسین نے مزید بتایا کہ فائرنگ کے دوران زمین پر لیٹ کر جان بچائی اور کچھ دیر بعد ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی۔
اطلاعات کے مطابق ہوٹل کی بجلی معطل کر دی گئی تھی اور تمام علاقہ اندھیرے میں ڈوبا گیا تھا۔ پولیس نے ہوٹل کے اردگرد کے تمام علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا جبکہ پولیس کی مزید نفری وقوعہ پر پہنچا دی گئی تھی۔ تاہم اب بتایا گیا ہے کہ ہوٹل کی بجلی بحال کر دی گئی ہے اور صورتحال معمول پر آ گئی ہے۔
سن 1969 میں تعمیر کیا جانے والا انٹر کانٹینینٹل ہوٹل افغانستان کے بہترین ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس لگژری ہوٹل میں حکومتی اہلکار اور غیر ملکی زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ سن 2008ء میں کابل میں واقع سیرینا ہوٹل میں حملے کے بعد سے اس ہوٹل میں سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی۔ سیرینا ہوٹل پر ہوئے حملے کے نتیجے میں تین غیر ملکیوں سمیت کل سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین