کابل میں بم دھماکہ، نئے سوالات
8 اکتوبر 2009بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ کابل کا بھارتی سفارت خانہ ہی خود کش حملہ آور کا ہدف تھا۔ یادرہے کہ گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں بھی اسی سفارت خانے پرایک خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں دو اعلی بھارتی حکام سمیت سا ٹھ افراد مارے گئے تھے اورایک سو چالیس کے قریب افراد زخمی ہوئے تھے۔ تاہم اس حملے نے افعانستان میں نئی دہلی کے کردار سے لے کر بھارت پاکستان تعلقات پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں۔
اس حملے کے بعد بھارتی اور چند مغربی مبصرین سب سے پہلا سوال یہ اٹھا رہے ہیں کہ آخر بھارتی شہریوں کو افغانستان میں نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے، حالانکہ اعدادو شمار بتاتےہیں کہ بھارت نے افعانستان میں سڑکوں کی تعمیرنو کے لئے 2.1 بلین امریکی ڈالر کی امداد دی ہے۔ بھارتی حکام نے کابل میں گزشتہ سال جولائی میں بھارتی سفارت خانہ پر ہوئے بم دھماکے کا الزام بھی پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی پر لگایا گیا تھا۔
بھارتی مبصرین کے مطابق امداد کے اسی پہلوکودیگر اہم علاقائی قوتیں، بطور خاص پاکستان اور عسکریت پسند گروہ نہایت مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو مالی امداد کے علاوہ ثقافتی طور پر بھی بھارتی فلموں اور ٹی وی چینلز نے بھی بہت حد تک افغان شہریوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ بھارتی مبصرین کا اندازہ ہے کہ غالباﹰ افغان شہریوں کے بدلتے اسی ذہنی رجحان کے باعث پاکستان کے ارباب اقتدار میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
پاکستان سے متعلق مذکورہ تاثر اس لئے بھی عام ہے کہ اسّی کی دھائی سے ہی پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے، کیونکہ اسلام آباد انتظامیہ افغانستاں کو خطے میں اپنا اسٹریٹجک اثاثہ سمجھتی ہے۔
دوسری طرف بھارت بھی افغانستان میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ نئی دہلی کا موقف رہا ہے کہ پاکستانی افواج بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی تربیت اور سرپرستی کرتی ہیں۔ اس لئے نئی دہلی انتظامیہ افغانستان میں اپنے قدم جما کر پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثرکو کسی حد تک کم کرنا چاہتی ہے۔
اس پس منظر کے حوالے سے سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کو عسکریت پسندوں کا حامی ظاہر کرنے سے افغانستان میں جاری امن کی کوششوں کو کیا نقصان پہنچےگا، جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعطل کے شکار امن مذاکرات بھی کیا دوبارہ شروع ہوسکیں گے۔
تحریر: عبدالرؤف انجم
ادارت: انعام حسن