کاتالونیا میں علیحدگی پسندوں کی کامیابی
28 ستمبر 2015ہسپانوی حکومت اتوار کے روز اپنی امیر ترین ریاست میں ہونے والے عام انتخابات میں برتری حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کامیابی حاصل ہوئی ہے علیحدگی پسند ’’ٹوگیدر فار ییس‘‘ یا ’’کاتالونیا کی علیحدگی کے لیے ہاں‘‘ کے حامیوں کو، جس کی قیادت ریاستی صدر آرتر ماس کر رہے ہیں۔
کاتالونیا کی اسپین سے علیحدگی کے حامیوں کو انتخابات میں اڑتالیس فیصد سے کچھ زائد ووٹ ملے ہیں اور ایک سو پینتیس رکنی پارلیمنٹ میں ان کی نشستوں کی تعداد پینسٹھ ہے۔ اگر یہ اتحاد ایک اور علیحدگی پسند گروٹ پاپولر یونیٹی کینڈیڈیسی یا سی یو پی سے سمجھوتا کر لیتا ہے تو اسے اسپین سے سن د و ہزار سترہ میں علیحدگی اختیار کر لینے کے حوالے سے محرک مل جائے گا۔
اسپین کی برسر اقتدار جماعت پاپولر پارٹی کو ان انتخابات میں آٹھ نشستوں کے گھاٹے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انتخابات کے غیر سرکاری نتائج آتے ہی بارسلونا کی سڑکوں پر جشن کا سماں تھا اور لوگ ’’آزادی، آزادی‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
انتہائی اہم سمجھے جانے والے ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح ستتّر فیصد تھی۔ چار ملین ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے علیحدگی پسندوں کو ایک اعشاریہ نو ملین ووٹ ملے۔
انتخابات سے قبل ماس کا کہنا تھا کہ نتائج ایک طرح سے آزادی کے حق میں یا مخالفت میں ایک ووٹ سمجھا جائے گا۔ تاہم علیحدگی پسند پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر سکے، جس سے اسپین کی یک جہتی کے داعیوں کو یہ کہنے کا موقع بہرحال مل گیا ہے کہ کاتالونیا کی اکثریت اسپین سے آزادی نہیں چاہتی۔
ہسپانوی وزیر اعظم ماریانو راخوئے کے ترجمان پابلو کاسادو کا کہنا ہے کہ حکومت ’’اسپین کی یک جہتی کا دفاع کرتی رہے گی۔‘‘
اٹھائیس رکنی یورپی یونین، جس کا رکن اسپین بھی ہے، کا کہنا ہے کہ کاتالونیا کی علیحدگی کی صورت میں نئی ریاست کو بلاک کی رکنیت نہیں ملے گی۔
تاہم کاتالونیا کو نیا ملک دیکھنے کے خواہش مند پرمسرت ہیں۔ پچاس سالہ یورڈی پیریز، جو کہ پیشے کے اعتبار سے سول سرونٹ ہیں، کا کہنا ہے: ’’میں نوجوانی ہی سے کاتالونیا کی آزادی کا حامی رہا ہوں۔ کئی صدیوں سے اسپین نے ہمیں ہماری علیحدہ ثقافت سے محروم کیا ہوا ہے۔ اب ایک ایسا وقت آ گیا ہے کہ کاتالونیا کے عوام کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ’بہت ہو گیا‘‘۔