کالعدم اخوان المسلمون کے 75 مزید حامیوں کو موت کی سزا سنادی
28 جولائی 2018مصر میں جس عدالت نے 75 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے، ان میں کالعدم اخوان المسلمون کی اعلیٰ سطحی اراکین بھی شامل ہیں۔ سزائے موت پانے والوں میں اس خلاف قانون قرار دی گئی مذہبی و سیاسی و سماجی تحریک کے اعلیٰ ترین لیڈر یا مرشد عام محمد بدیع بھی شامل ہیں۔
ان افراد کو سن 2013 میں ایک دھرنے میں شرکت کرنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے۔ ان ملزمان پر مصری دفترِ استغاثہ نے سلامتی کے منافی اقدامات کرنے، قتل، اقدام قتل اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے تھے۔
عدالت نے موت کی ان سزاؤں پر ملکی مفتیٴ اعظم کی رائے طلب کی ہے۔ تاہم جامعہ ازہر سے تعلق رکھنے والے مفتی اعظم کی رائے پر عمل کرنا بظاہر لازم نہیں ہے۔ یہ ایک رسمی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ موت کی سزا کے خلاف اپیل صرف اعلیٰ عدالتوں میں کی جا سکتی ہے اور اُن میں سماعت کے دوران مفتیٴ اعظم کی رائے کو سامنے رکھا جاتا ہے لیکن عدالت اُس سے انحراف بھی کر سکتی ہے۔
عدالت کے سامنے سن 2013 میں محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد دیے گئے دھرنے میں ملوث ملزمان کی تعداد 739 تھی۔ ان میں تحلیل شدہ مذہبی و سیاسی تنظیم اخوان المسلمون کے سپریم لیڈر کے علاوہ کئی مرکزی رہنما بھی شامل ہیں۔ مرکزی قیادت کے بیشتر رہنماؤں کو السیسی حکومت نے گرفتار کر کے پہلے ہی جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔
آج کا فیصلہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی ایک فوجداری عدالت نے دیا ہے۔ عدالت نے ایک فوٹو جرنلسٹ محمود ابو زید کو بھی موت کی سزا سنائی ہے۔ جگر کے شدید عارضے میں مبتلا یہ فوٹو جرنلسٹ سن 2013 سے جیل میں ہے۔ تیس برس کے ابُو زید کو رواں برس اپریل میں یونیسکو پریس فریڈم کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے مصر کی عدالتوں کے فیصلوں اور نظام انصاف پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
دوسری جانب حکومتی اخبار الاحرام کے مطابق رواں برس آٹھ ستمبر کو 660 سے زائد افراد کی سزائے موت پر عمل کیے جانے کا امکان ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والوں کے ناموں کی تفصیلات ابھی عام نہیں کی گئیں ہیں۔ بعض مصری ذرائع کے مطابق ان میں کئی دہشت گرد بھی شامل ہیں۔