1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کتا انسان کا وفادار دوست کیوں؟ کھوج مل گیا

افسر اعوان26 فروری 2014

ہنگری کے سائنسدانوں کے مطابق انہیں انسانوں کی طرح کتوں کے دماغ میں بھی ’وائس ایریا‘ یعنی آوازوں سے متعلق حصہ موجود ہونے کا ثبوت ملا ہے۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہو سکتی ہے کہ کتا انسان کا بہترین دوست کیوں ہے۔

https://p.dw.com/p/1BFOK
تصویر: Borbala Ferenczy

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اب تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ صرف انسان اور بندر ہی ایسی مخلوق ہیں جن میں آوازوں میں چھپے جذبات کی سمجھ بُوجھ موجود ہے۔ اس تحقیق کے نتائج بظاہر اس ایک وجہ کی نشاندہی کرتے ہیں جس کی بدولت ہزاروں برسوں سے کتے انسانوں سے مانوس چلے آ رہے ہیں اور یہ وجہ اس مخلوق کی طرف سے انسانی جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت ہے۔

اسٹڈی کے دوران کتوں اور انسانوں کے ذہن میں ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے ان کے دماغوں کا fMRI کیا گیا
اسٹڈی کے دوران کتوں اور انسانوں کے ذہن میں ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے ان کے دماغوں کا fMRI کیا گیاتصویر: Eniko Kubinyi

بوڈا پیسٹ میں قائم ہنگیریئن اکیڈمی آف سائنسز MTA-ELTE کے شعبہ ’کمپیریٹیو ایتھولوجی‘ کے تحقیقی گروپ سے منسلک اتیلا اینڈکس Attila Andics کے مطابق ’’انسان اور کُتے ایک جیسے سماجی ماحول میں رہتے ہیں۔‘‘ ایتھولوجی علم حیاتیات کا ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں جانداروں کے طرز عمل کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔

اینڈکس کا مزید کہنا تھا، ’’ہمارے دوستوں کا دماغ بھی سماجی معلومات کو پراسیس کرنے کا ہماری طرح کا ہی ذہنی طریقہ کار رکھتا ہے۔ اور یہ جانداروں کی دو مختلف نسلوں کے درمیان کامیاب صوتی ابلاغ کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کے مطابق کتے اب سے قریب 18 ہزار سے لے کر 32 ہزار سال قبل ہی انسانوں کے ساتھ مانوس ہو گئے تھے۔

اس اسٹڈی کے نتائج امریکی تحقیقی جریدے ’کرنٹ بائیالوجی‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔ محققین کے مطابق آوازوں سے متعلق حصے اتقاء کے حوالے سے اس سے زیادہ طویل تاریخ رکھتے ہیں جتنا اب تک خیال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ تاریخ 10 لاکھ سال قبل تک ہو سکتی ہے۔

اس تحقیق کے دوران جسے وہ اپنی نوعیت کی پہلی اسٹڈی قرار دیتے ہیں، اینڈکس اور ان کی ٹیم نے تجربے میں شریک 11 کتوں اور 22 انسانوں کو قریب 200 کتوں اور انسانوں کی آوازیں سنوائیں جن میں رونے جیسی آوازوں سے لے کر خوشی سے بھونکنے اور ہنسنے جیسی آوازیں شامل تھیں۔ ان میں ایسی آوازیں بھی شامل تھیں جن میں بظاہر کسی جذبے کا اظہار نہیں ہو رہا تھا۔ اس دوران ان کے ذہن میں ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے ان کے دماغوں کا fMRI (فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ) کیا گیا۔

’’بالآخر ہم یہ جاننے لگے ہیں کہ ہمارے بہترین دوست ہمیں کیسے دیکھتے ہیں اور کیسے ہمارے سماجی ماحول میں حرکت کرتے ہیں۔‘‘
’’بالآخر ہم یہ جاننے لگے ہیں کہ ہمارے بہترین دوست ہمیں کیسے دیکھتے ہیں اور کیسے ہمارے سماجی ماحول میں حرکت کرتے ہیں۔‘‘تصویر: Far from Fear eV

محققین کے مطابق اس طرح حاصل ہونے والے امیجز سے معلوم ہوا ہے کہ انسان اور کتوں کے دماغوں میں آواز سے متعلق حصے ایک جیسی جگہوں پر ہی موجود ہیں۔ اور یہ کہ جب دونوں جانداروں کو غمگین آوازوں کی بجائے خوشی سے لبریز آوازیں سنوائی گئیں تو ان کے دماغ کے ’پرائمری آڈوٹری کورٹیکس‘ کے قریبی حصے زیادہ روشن دکھائی دیے۔

اس تحقیق کے مطابق یہ بات حیران کُن نہیں ہے کہ کتوں کے دماغ میں آوازوں سے متعلق حصے میں رد عمل اس وقت زیادہ دیکھا گیا، جب انہیں کتوں کی ہی آوازیں سنوائی گئیں۔ جبکہ انسانوں میں اسی طرح سے انسانوں ہی کی آواز سن کر نسبتاﹰ زیادہ ردعمل کا مشاہدہ کیا گیا۔

اینڈکس کے بقول، ’’بالآخر ہم یہ جاننے لگے ہیں کہ ہمارے بہترین دوست ہمیں کیسے دیکھتے ہیں اور کیسے ہمارے سماجی ماحول میں حرکت کرتے ہیں۔‘‘