کرائسٹ چرچ کی النور مسجد نمازیوں کے لیے کھول دی گئی
23 مارچ 2019النور مسجد کے دوبارہ کھولے جانے کے موقع پر تین ہزار مقامی شہریوں نے کرائسٹ چرچ کی گلیوں میں مارچ کیا۔ اسے ’مارچ آف لَو‘ کا نام دیا گیا۔ اس مارچ کا مقصد جہاں پندرہ مارچ کے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے پچاس مسلمان نمازیوں کو یاد کرنا تھا وہیں اس کا مقصد اس مسجد کے دوبارہ کھولے جانے پر اظہار احترام بھی تھا۔
کرائسٹ چرچ کی النور مسجد کے دوبارہ کھولے جانے پر مقامی شہریوں کے جذبات و احساسات کی ملکی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے تعریف کی ہے۔
اس مارچ میں لوگوں نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، اُن پر ’مسلمانوں کو خوش آمدید، نسل پرستوں کو نہیں‘، ’اُس (حملہ آور) نے تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن سب متحد و مضبوط ہو گئے‘ جیسے جملے درج تھے۔ اس مارچ کے شرکاء زیادہ وقت خاموشی سے چلتے رہے اور بعض لوگ مقامی ماؤری باشندوں کا امن کا ایک گیت دھیمی آواز میں گنگناتے رہے۔ یہ مارچ مجموعی طور پر اپنے ساتھ سوگوار فضا لیے ہوئے تھا۔
اس مارچ کے منتظمین میں سے ایک طالبہ مانائیا بٹلر کا کہنا تھا کہ اس نفرت انگیز حملے سے چاروں طرف تاریکی پھیلنے کا جو احساس پیدا ہوا تھا، وہ لوگوں کے اتحاد اور محبت کی روشنی سے ختم ہو گیا ہے۔ اس ٹین ایجر طالبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اندھیرے کا یقینی علاج اتحاد کی روشنی ہے۔ یہ مارچ پولیس کی سخت سکیورٹی میں شہر کی مختلف سڑکوں اور گلیوں میں کیا گیا۔
مارچ کے شرکاء جب النور مسجد پہنچے تو وہاں مسلح پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اس موقع پر ایک نمازی آصف شیخ نے مسجد کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد ایک طرف جائے عبادت ہے تو دوسری جانب لوگوں کی ایک دوسرے سے ملاقات کا مرکز بھی۔ شیخ نے کہا کہ وہ حملے کے وقت اسی مسجد میں موجود تھے اور اُس حملے میں اُن کے دو ساتھی مارے گئے تھے۔
النور مسجد اور نواحی علاقے لِن وُوڈ کی مسجد میں ہلاک ہونے پچاس نمازیوں کا تعلق پاکستان، بھارت، ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی، صومالیہ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تھا۔ یہ سبھی ان ممالک کے تارکین وطن تھے۔ اس میں سے چند ایک طلبہ بھی تھے۔ نیوزی لینڈ کی کُل اڑتالیس لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً ایک فیصد ہے۔