1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں صوبائی اسمبلی کے لیے ضمنی الیکشن، پیپلز پارٹی فاتح

10 جولائی 2017

پاکستانی وزیر اعظم کی جماعت مسلم لیگ نون کے امیدوار کی طرف سے دھاندلی ثابت ہونے کے بعد خالی ہونے والی سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس ایک سو چودہ پر ہونے والا ضمنی انتخاب سخت مقابلے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے جیت لیا۔

https://p.dw.com/p/2gHkP
ضمنی انتخاب میں ووٹروں کی شرکت کا تناسب قریب تیس فیصد رہاتصویر: picture alliance/AP Photo

کئی مبصرین ملک میں آئندہ عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی اس انتخابی کامیابی کو اہم قرار دے رہے ہیں مگر ساتھ ہی اندرونی اور بیرونی مشکلات کی شکار جماعت ایم کیو ایم کی کارکردگی بھی اس حلقے میں ماضی کے تمام انتخابات کے مقابلے میں بہتر رہی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اس حلقے سے پہلی مرتبہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ سعید غنی اس حلقے کے رہائشی ہیں۔ لہٰذا ان کا بطور امیدوار انتخاب پیپلز پارٹی کے لیے اچھا ثابت ہوا۔ تاہم متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم نے بھی بھرپور انتخابی مقابلہ کیا اور پارٹی کی لندن میں موجود قیادت کی طرف سے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان اس حلقے میں عام ووٹروں کو ان کے گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں کامیاب رہی۔

ایک اور سینئر صحافی قیصر محمود کے مطابق پی ایس ایک سو چودہ کی نشست پیپلز پارٹی نے نواز لیگ سے جیتی ہے اور ایم کیو ایم کی لندن شاخ نے جو بائیکاٹ کی اپیل کی تھی، اس کا کوئی خاص اثر نہ پڑا اور اردو بولنے والوں نے انتخاب میں بھرپور شرکت کی۔ ان کے بقول مستقبل میں ایم کیو ایم کی طرف سے یہ نشست ایک بار پھر سے جیت لینے کے امکانات بھی روشن ہیں۔

دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں نواز لیگ کے عرفان اللہ مروت کی کامیابی کو الیکشن کمیشن نے ان پر دھاندلی کا الزام ثابت ہو جانے پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عرفان اللہ مروت نے نااہل ہو جانے کے بعد پارٹی تبدیل کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے سابق صدر آصف زرداری سے بھی ملاقات کی تھی، مگر آصف زرداری اور بختاور بھٹو زرداری ان کے راستے کی دیوار بن گئے تھے۔

کراچی کے ميئر شہر کی گندگی کے بارے ميں کيا کہتے ہيں؟

اس انتخابی حلقے میں اثر و رسوخ رکھنے والے عرفان اللہ مروت نے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کیا  تھا اور پیپلز پارٹی نے اس حلقے میں اپنے سب سے زیادہ مضبوط رہنما سعید غنی کو ٹکٹ دیا تھا جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے مسلم لیگ فنکشنل چھوڑ کر پارٹی میں شامل ہونے والے کامران ٹیسوری کو امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔ نواز لیگ نے اپنے پرانے ساتھی علی اکبر گجر کو اس مقابلے میں اتارا تھا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدواروں سمیت کل ستائیس امیدواروں نے اس ضمنی انتخاب میں حصہ لیا تھا لیکن بنیادی مقابلہ شروع سے ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان تھا۔ اس دوران تحریک انصاف توقع کے برعکس بری طرح شکست کھا گئی۔

پولنگ والے دن تمام جماعتوں نے مخالفین پر روایتی انتخابی جھگڑوں اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے تاہم سعید غنی نے براہ راست رینجرز پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو اور خود انہیں بھی انتخابی مراکز نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔ ان الزامات کے باوجود انتخابی عمل پرامن طور پر مکمل ہوا تو ووٹوں کی گنتی کے آغاز سے ہی کبھی ایم کیو ایم اور کبھی پیپلز پارٹی آگے رہیں۔ پھر بالآخر سعید غنی نے تئیس ہزار سات سو ستانوے ووٹوں  کے ساتھ یہ میدان مار لیا۔

Pakistan Portrait des MQM-Führers Altaf Hussain
ایم کیو ایم کی لندن قیادت نے اس ضمنی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

ایم کیو ایم کو اٹھارہ ہزار جبکہ نون لیگ کے امیدوار کو تقریباﹰ آٹھ ہزار ووٹ ملے۔ تحریک انصاف صرف پانچ ہزار ووٹ حاصل کر سکی جبکہ جماعت اسلامی کو دو ہزار ووٹ بھی نہ مل سکے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ ترانوے ہزار سے زائد تھی لیکن صرف قریب انسٹھ ہزار ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس طرح ووٹروں کی شرکت کا تناسب تیس فیصد کے قریب رہا، جسے ماضی کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے کچھ بہتر تصور کیا جا رہا ہے۔

سعید غنی کی جیت کا اعلان ہوتے ہی آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت سعید غنی کے گھر پہنچ گئی، جہاں فتح کا جشن منایا گیا۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے اس انتخاب کو ’دھاندلی زدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی ستائیس پولنگ اسٹیشنوں کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم ایم کیو ایم کو اس حلقے سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے، جس پر پارٹی نے ووٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارکن اب آئندہ عام انتخابات کی تیاری بھی شروع کر دیں۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے ووٹروں نے لندن میں پارٹی قیادت سے علیحدگی کے اقدام کو درست قرار دیا ہے جب کہ لندن سے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود ایم کیو ایم کو اس حلقے سے اتنے ووٹ ملے ہیں، جتنے اس سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔

Pakistan Sindh province Versammlung wählt Präsident
کراچی میں سندھ کی صوبائی پارلیمانتصویر: AP

اس انتخابی حلقے میں ضمنی انتخاب کو انتہائی قریب سے دیکھنے والے سینئر صحافی کے آر فاروقی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو سبق سیکھنا چاہیئے۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت میں ہونے کے باعث انتخاب جیتنے میں کامیاب رہی لیکن پانچ ہزار ووٹوں کا فرق بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم کے لیے اس ضمنی انتخاب کی اہم بات مہاجر قومی موومنٹ کی امیدوار کی وہ حمایت بھی تھی، جو اسے کافی حد تک پاک سرزمین پارٹی یا پی ایس پی کی طرف سے ملی، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہیں۔

کے آر فاروقی نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں کراچی سے ملنے والی مقبولیت کو ضائع کر دیا۔ کراچی کے شہریوں نے پی ٹی آئی کو آٹھ لاکھ ووٹ دیے تھے، جن میں سے اکثر اسے اردو بولنے والے علاقوں سے ملے تھے۔ مگر فاروقی کے مطابق تحریک انصاف کراچی کے عوام کے اعتماد پر پوری نہیں اتر سکی اور اس نے خود کو کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں خود کو پشتونوں تک ہی محدود کر لیا۔ ’’یہی وجہ ہے کہ دو ہزار تیرہ کے بعد ہونے والے ہر ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔‘‘

معروف صحافی اویس توحید نے بھی ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے اور سندھ اسمبلی کا حلقہ ایک سو چودہ منی کراچی ہے، جہاں اردو بولنے والوں کے علاوہ پنجابی، پٹھان، کشمیری، ہزارہ وال، سندھی اور بلوچ قومیتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں مسیحی اور پارسی بھی آباد ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہی بات اس حلقے کو شہر کے دیگر حلقوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہاں حتمی کامیابی تک کوئی امیدوار اپنی فتح کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ البتہ الطاف حسین کی بائیس اگست کی تقریر سے جو سیاسی خلا پیدا ہونے کا خدشہ تھا، وہ پیدا نہیں ہوا اور ایم کیو ایم فاروق ستار کی قیادت میں متحد نظر آئی ہے۔‘‘