کراچی کا اگلا میئر کون ہوگا؟
16 جنوری 2023غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے شہر کی تقریباً ڈھائی سو میں سے سو، سو نشستیں جتنے کا دعوٰی کيا ہے۔ تحریک انصاف نے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان کی کاروباری برادری کے لیے ’تاریک ترین‘ دور
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ
کیا اسٹیبلشمنٹ سندھ میں متحدہ کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگی؟
کراچی کی کل 246 یونین کونسلز میں سے 235 پر اتوار پندرہ جنوری کو پولنگ ہوئی اور نتائج کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 11 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث ووٹنگ ملتوی کر دی گئی تھی۔ اب تک جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی 51 نشستوں کے ساتھ پہلے، جماعت اسلامی 27 کے ساتھ دوسرے اور تحریک انصاف 20 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
میئرشپ کے ليے تحریک انصاف سے بات نہیں ہو گی، سعید غنی
انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر کے باعث سیاسی جماعتوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبے میں برسر اقتدار جماعت پر دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ شروع ہونے لگا ہے۔ تاہم صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کراچی کے صدر سعید غنی کا کہنا ہے کہ کراچی کے لوگوں نے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی پر اعتماد کیا۔
انہوں نے کہا، ''جماعت اسلامی کو کامیابی پر مبارک باد۔ يہ پرانی اور سنجیدہ سیاسی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ پہلے بھی ورکنگ ریلیشن شپ رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ انتخابی مہم کے دوران بھی پارٹی سے رابطہ تھا۔ اس پارٹی نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کيا اور پيپلز پارٹی نے بھی۔ کراچی کے عوام نے عمران خان کو پہلے بھی مسترد کر دیا تھا اور اب دوبارہ مسترد کر دیا ہے۔ پيپلز پارٹی اب تک 100 نشسیں جیت چکی ہے اور اگر سادہ اکثریت حاصل نا ہوئی تو میئر کے ليے تحریک انصاف کے علاوہ سب سے بات ہو سکتی ہے۔‘‘
نتائج تبدیل کرنے کے الزامات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے غنی نے کہا کہ 'یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘ ان کے بقول اگر ایسا ممکن ہوتا، تو ان کا اپنا بھائی بلدیاتی الیکشن نہ ہارتا۔
جماعت اسلامی تحفظات کے باوجود سادہ اکثریت کے ليے پر امید
امیر جماعت اسلامی کراچی اور میئرشپ کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان نے ڈوچے ویلے اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ يہ صوبائی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن شفاف ہوں۔ انہوں نے مطالبہ کيا ہے کہ نتائج کے معاملات کو آئندہ چند گھنٹوں میں حل کيا جائے، بصورت دیگر احتجاج کی کال دی جا سکتی ہے۔
حافظ نعیم نے دعوٰی کیا کہ 'انہیں موصولہ اطلاعات کے مطابق ان کی جماعت تقریباً ايک سو نشستیں جیت چکی ہے اور ميئر ان ہی کا ہو گا۔ ''اگر دیگر پارٹیوں سے بات کرنا پڑی تو شہر کی تعمیر و ترقی کے ليے، جو بہتر آپشن ہو گا، وہ کریں گے۔‘‘
حافظ نعیم نے بلاول بھٹو اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ زبردستی کسی کو اس کے حق سے محروم نہ کيا جائے۔ ''پولنگ ختم ہوئے 18 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ حیدر آباد سے نتائج موصول اور اندرون سندھ سے نتائج موصول ہو رہے ہیں لیکن کراچی سے نتائج جاری نہیں کيے جا رہے۔ اگر جماعت اسلامی کے میئر کو آنے سے زبردستی روکا گیا، تو تمام آپشن موجود ہیں۔‘‘
جماعت اسلامی کی غیر مشروط حمایت کریں گے، فردوس شمیم نقوی
تحریک انصاف کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں 20 نشستوں کے ساتھ اب تک تیسرے نمبر پر ہے۔ پی ٹی آئی سندھ کے سینئر رہنما اور سندھ اسمبلی میں سابق حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ووٹنگ ٹرن آوٹ گیارہ فیصد ہونے کے باوجود نتائج تاخیر کا شکار ہيں۔ ''مجھے اپنی کامیابی کا نتیجہ رات گئے ہی موصول ہو گيا تھا۔ حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں سمیت بہت سارے تحفظات کے باوجود جہموریت کا عمل جاری رکھنے کے ليے الیکشن میں حصہ لیا۔ سابقہ بلدیاتی نظام سن 2020 میں ختم ہو گيا تھا۔ ایم کیو ایم سن 2023 میں نیند سے جاگی ہے، پی ٹی آئی کورٹ بھی گئی، جو نتائج آ رہے ہیں، وہ عوامی رائے کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ ماضی قریب میں کراچی میں جو ضمنی الیکشن ہوئے ہیں ان میں تحریک انصاف بڑے فرق سے فتح یاب ہوئی۔ جماعت اسلامی نے کوئی ضمنی الیکشن نہیں لڑے۔‘‘
فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ 'الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے خلاف ہے لہذا ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ ہم اس اليکشن کو مسترد کرتے ہیں۔ کسی سے اتحاد نہیں ہوگا البتہ جماعت اسلامی کی غیر مشروط حمایت کریں گے کیوں کہ پیپلز پارٹی کراچی دشمن جماعت ہے۔‘‘
’بائیکاٹ سے ایم کیو ایم کا بھرم رہ گیا‘
تجزیہ کاروں کی رائے میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں غیر یقینی صورت حال نماياں ہے۔
ڈوچے ویلے اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی اب تک لیڈ کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے۔ دوسرے مرحلے میں سب سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ کراچی میں رہا کیونکہ شہر میں بلدیاتی الیکشن کی صورت حال ایسی ہی ہے جیسے رویت ہلال کمیٹی کی چاند کے حوالے سے رہتی ہے۔‘‘
مظہر عباس کے مطابق، ''اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت نظر آ رہی ہے۔ حیدر آباد، میر پور خاص اور ديگر علاقوں ميں نتائج واضح ہیں۔ جماعت اسلامی اگر کراچی سے جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے، تو حافظ نعیم میئر بنتے ہیں۔ چار مرتبہ الیکشن ملتوی ہونے کے باوجود وہ گھروں پر نہیں بیٹھے، انہوں نے انتخابی مہم جاری رکھی۔‘‘
''یہ الیکشن عمران خان کے ليے خطرے کی گھنٹی ہے۔ پی ٹی آئی کی کارکردگی نا کراچی میں اچھی رہی اور نہ دیگر شہروں میں، جو بہت ہی مایوس کن ہے۔ سوائے نیوز کانفرنس کے تحریک انصاف کا کوئی رہنما گراؤنڈ پر دکھائی نہیں دیا۔ عمراں خان کی توجہ صرف کے پی اور پنجاب کی سیاست پر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے بلدیاتی نمائندوں کو بالکل ڈمپ کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے بعد پيدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھايا لیکن تحریک انصاف اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ایم کیو ایم والے کم ووٹر ٹرن آوٹ کو کہہ رہے ہیں کہ ايسا ان کے بائیکاٹ کی وجہ سےہوا۔ بائیکاٹ کے دعوے دار بھی دو ہیں، لندن اور ایم کیو ایم پاکستان۔ لیکن اگر ایم کیو ایم اس الیکشن میں حصہ لیتی بھی تو کامیابی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ پی ایس پی اپنے انتخابی نشان سے اور فاروق ستار اپنے نشان سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ لہذا ایم کیو ایم کا بھرم رہ گیا، کم ووٹر ٹرن آوٹ کی صورت حال ہر پارٹی کے ليے آئی اوپنر ہے۔‘‘
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سید مصطفٰی کمال کہتے ہیں کہ متنازعہ حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کراچی کے عوام کے حق میں ہے۔ ''الیکشن تو کوئی چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ہمارے اتحاد کے بعد ایم کیو ایم کی پوزیشن اتنی بھی بری نہیں ہے۔ ہم اپنا میئر نہ لا سکیں، یا اگر سادہ اکثریت نا حاصل کر سکيں تو صوبے اور وفاق میں اتحادیوں کے ساتھ کراچی اور حیدرآبد میں میئر لے آتے۔‘‘
مصطفٰی کمال نے مزيد کہا ''آرٹیکل 10 اے ون بتاتا ہے کہ جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں، وہ منصفانہ نہیں ہیں۔ ہم یہ مقدمہ لے کر کئی ماہ سے سپریم کورٹ گئے اور عدالت نے کہا کہ صوبائی حکومت کا اختیار ہے ان کے پاس جائیں۔ پھر تین ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد وزیر اعلٰی نے غلطی تسلیم کی۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ 70 مزید یونین کونسلز کراچی میں ہونی چاہيیں۔ صوبائی حکومت نے 53 یوسی مان لی ہیں، اتنی یوسیز پر ایک نیا شہر آباد ہوتا ہے۔ ان 53 یونین کونسلز کے اختیارات اور وسائل بھی ملتے، 1 کروڑ 60 لاکھ کی مردم شماری کو ہم نہیں مانتے۔ اگر درست مردم شماری ہو تو بات 100 سے زائد نئی یونین کونسلز سے بھی آگے جائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی کی 100 یوسیز کا پیسہ، مراعات اور اختیارات ہوں ہی نہ؟ ایسے حالات میں کراچی میں بلدیاتی الیکشن لڑ کر اور میئر بن کر کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم پارٹی اگر الیکشن میں حصہ ليتی تو ہمارا دعوی غلط ہو جاتا۔ ایم کیو ایم کے پاس صوبائی حکومت کا آرٹیکل 10 اے ون کا لیٹر ہے جو انہوں نے دو دن پہلے الیکشن کمیشن کو لکھا ہے۔ جس کا اردو میں مطلب ہے کہ سندھ حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ ہم نے کراچی کے ليے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے بڑی قربانی دی ہے۔‘‘