1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کے قدیم علاقے، جہاں محرم کا کوئی مسلک نہیں

29 اگست 2020

کراچی کے قدیم شہری علاقے تنگ اور وسیع گلیوں کی بھول بھلیاں ہیں۔ کب آپ پیدل چلتے چلتے کھارادر سے میٹھادر جا نکلیں، محسوس بھی نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/3hj0X
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

ایک ہی دھاگے میں سلی ہوئی ان گلیوں نے نیا باد،بغدادی ، لیاری ، نارائن پورہ ،رنچھوڑ لین ، نیپئر روڈ اور جونا مارکیٹ جیسے کئی علاقوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ ان الجھی گلیوں، چوراہوں نے کبھی بہت سلجھے ہوئے سلیقے طریقے کے لوگ بھی دیکھے تھے۔ ان قدیم عمارتوں نے کراچی میں مسلمانوں کے فرقوں کو ایک دوسرے کا گریبان کھسوٹتے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شامل ہونے کی وہ روایات آج بھی ہیں۔

رواداری کی دولت سے مالا مال اولڈ سٹی ایریا میرا آبائی علاقہ ہے، یہاں ہم نے گلیاں یا علاقے شیعہ سنی میں بٹے ہوئے نہیں دیکھے۔ محرم کی بھی کوئی مسلکی تقسیم نہیں ہوئی۔ سبیل بھی شیعہ یا سنی کی نہیں ہوتی، علم بھی ضروری نہیں کہ صرف کسی امام بارگاہ کے صحن میں نصب ہو۔ محرم کا چاند نظر آیا اور لیاری کے علاقے بغدادی کے قریب واقع بشو امام بارگاہ میں عزاداری کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اٹھارہ سو پینتیس میں اس امام بارگاہ کو سندھ کے لاسی خاندان نے قائم کیا تھا۔

میٹھادر کے علاقے کاغذی بازار سے ملحقہ اس گلی میں جھانکیں، جس کا آخری سرا وہ ہے، جہاں سے عبدالستار ایدھی بیٹھ کر ایدھی فاونڈیشن چلاتے تھے۔ اس گلی کے کئی گھروں میں اہلسنت کمیونٹی کے زیر اہتمام مجالس برپا ہوتی ہیں۔ یہاں کے میمن افراد اپنی رہائشی عمارتوں کے کمروں میں تعزیے بناتے ہیں۔

انہی گلیوں میں یہاں وہاں گزرتے جائیں، سبز یا پھر سرخ رنگ کے کپڑے میں لپٹے علم نظر آئیں گے اور ارد گرد زرق برق جھنڈیاں یا سجاوٹ ہو گی۔ سمجھ جائیں کہ یہ یادگار اہلسنت برادران کی جانب سے نصب ہے۔ یہاں زیارت کے لیے شیعہ جائیں یا سنی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان کی صحافی خواتین تقسیم کا شکار کیسے ہوئیں؟

بچے تو پیدا کر لیے گندم کون پیدا کرے گا؟

قائداعظم کا وزیر مینشن والا گھر، جو ہر بارش میں ڈوب جاتا ہے، اس سے دو چار گلیاں پرے ڈیڑھ سو سال قدیم بڑا امام باڑہ کھارادر ہے، یہاں نو محرم شب عاشور کو ڈھول اور پیتل کے تاشے بجا کر سوگ کی اس رات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس قدیم روایت کو دممام کہا جاتا ہے۔ یہاں لال گلابی کپڑے پہن کر آئیں یا سیاہ لباس زیب تن کیجیے، کوئی آپ کا مسلک نہیں پوچھے گا۔ یہاں عزاداروں میں کچھی، میمن، سندھی، مکرانی،گجراتی، اردو بولنے والے، سب ہی کھنچے چلے آتے ہیں۔ ان میں کتنے ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں کتنے ہاتھ باندھتے ہیں کسی کو غرض نہیں ہوتی۔

ذرا ساحل کی طرف رخ کیجیے اور کئی سو سال قدیم سراج امام بارگاہ لیاری چلے چلیے۔ یہاں شیعہ اور اہلسنت دونوں محرم الحرام کا جلوس نکالتے ہیں۔ امن و آشتی سے تمام مسالک نے ایک دوسرے کو دل میں جگہ دی ہوئی ہے ورنہ فتنہ پرور تو نہ خود پنپتے ہیں نہ کسی کو دم لینے دیتے ہیں۔

نیپئر روڈ کے علاقے میں جونا مارکیٹ کے قریب پونے دو سو سال پرانی امام بارگاہ 'بارہ امام ‘واقع ہے۔ یہاں پچھلے دو سو سال سے عزاداری بغیر کسی وقفے کے جاری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ علاقہ کراچی کا ریڈ لائٹ ایریا کہلانے لگا۔ اسی علاقے سے خواتین کا جلوس بھی نکلا کرتا تھا، جسے ہم بچپن میں اپنے گھر کی بالکونی سے دیکھتے تھے۔ پھر اللہ جانے وہ جلوس نکلنا کیوں بند ہو گیا۔

اولڈ سٹی کراچی ماہ محرم سے صرف مسلک کو ہی نہیں مذہب کو بھی الگ کرتا ہے۔ اسی شہر کی پرانی گلیوں میں رنچھوڑ لائن کا علاقہ نارائن پورہ بھی ہے۔ بندر روڈ سے آئیں تو ریڈیو پاکستان کی عمارت کے عین سامنے سے رنچھوڑ لائن جانے والے راستے پر ہندو کمیونٹی کی بہت بڑی چار دیواری کے اندر موجود آبادی آتی ہے۔ نارائن پورہ میں مندر اور گردوارہ ساتھ ساتھ ہیں۔

گر دوراے کی چھت پر سکھوں کے مخصوص کھنڈا نشان والے پرچم کے ساتھ علم عباس بھی نظر آتا ہے۔ یہاں نو محرم کو لکڑی سے بنے ذوالجناح اور تعزیے کا جلوس نکلتا ہے، دودھ کے شربت کی سبیل لگتی ہے۔ ایسے ہی رتن تلاو کے علاقے میں موجود ہندو کمیونٹی کے تعزیے نو محرم کی رات کو نکالے جاتے ہیں۔

ہم نے تو ان علاقوں میں فسادیوں کو کم ہی کامیاب دیکھا، محرم سب کو مناتے پایا۔ کیسا اچھا ہو، جو کراچی کیا پورے پاکستان میں برداشت و رواداری کے دن پھر سے لوٹ آئیں۔ اور ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو ایک دوسرے کے شر سے بچانے کے لیے اسلحہ تھامے سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت نہ پڑے۔