کرتارپور، بھارت نے پاکستان کے ساتھ ملاقات ملتوی کردی
29 مارچ 2019جمعے کے روز بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کو طلب کر کے انہیں اس معاملے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری سے متعلق بنائی جانے والی کمیٹی میں بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں جو خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کا حصہ ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دو اپریل کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتاپور راہ داری سے متعلق مجوزہ ملاقات کی تاریخ تبدیل کی جائے گی۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ملاقات اس وقت ہو گی، جب بھارت کی جانب سے اس معاملے سے متعلق اعتراضات پر پاکستان کی جانب سے جوابات موصول ہو جائیں گے۔
’بھارتی حکام کے ساتھ مکالمت خوشگوار ماحول میں ہوئی‘
کرتارپور کوریڈور: پاکستان کو بھارت کا جوابی دعوت نامہ
اس بھارتی اعلان پر پاکستان کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں واقع سکھوں کے لیے مقدس ترین ہستی گرو نانک کی جائے پیدائش تک رسائی دینے کا اعلان کیا تھا اور اس کے لیے کرتارپور راہ داری کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باقاعدہ افتتاح سے قبل پاکستان اور بھارت کو متعدد امور طے کرنا ہیں اور اسی سلسلے میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان یہ ملاقات بھی طے تھی۔
بھارت کی جانب سے اس ملاقات کی منسوخی پر اپنے ردعمل میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’بالکل آخری لمحے پر پاکستان سے موقف لیے بغیر ملاقات کی منسوخی اور خصوصاﹰ 19 مارچ کو ہونے والی نہایت تعمیری ٹیکنیکل میٹنگ کے بعد ایسا فیصلہ ناقابل فہم ہے۔‘‘
بھارت کے اس فیصلے پر صحافی اور سوشل میڈیا صارف رایندر سنگھ روبن نے کہا، ’’بھارت نے نام بتائے بغیر، ان رپورٹوں کے تناظر میں پاکستان سے وضاحت طلب کی، جن میں کہا گیا ہے کہ کرتارپور راہ داری معاملے کے لیے پاکستان میں بنائی گئی کمیٹی میں متنازعہ عناصر موجود ہیں۔ دوسری جانب پاکستان نے بھارتی میڈیا کو مدعو کیا ہے کہ وہ دو اپریل کو واہگہ میں ہونے والی اس ملاقات کو کوور کرے۔‘‘
ایک بھارتی سوشل میڈیا صارف سادھاوی کھوسلا کہتی ہیں، ’’کرتارپور راہداری اصل میں عمران خان کی جانب سے پھینکی گئی گوگلی ہے مگر کیپٹن اماریندر (وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب) اور میں سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی نیت صاف نہیں اور بھارت کو اس جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔‘‘