1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کروشیائی ڈرائیور مہاجرین کو ڈھوتے ڈھوتے تھک گئے

شمشير حيدر2 اکتوبر 2015

ہنگری اور سربیا کی سرحد بند ہونے کے بعد ہزارہا مہاجرین کروشیا کے راستے مغربی یورپ پہنچنے کی کوششوں میں ہیں۔ کروشیائی حکومت نے مہاجرین کے لیے عارضی ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا ہے۔ لیکن ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ وہ تھک چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GhYf
تصویر: picture-alliance/epa/Z. Balogh

دن کے وقت سیاحوں اور اسکول کے بچوں کے لیے بس چلانے والے کروشیائی ڈرائیور رات کے اوقات میں مہاجرین کو ہنگری کی سرحد تک پہنچانے کے لیے خصوصی بسیں چلا رہے ہیں۔ مغربی یورپ پہنچنے کے خواہش مند مہاجرین کو ہزاروں میل طویل سفر نے تو نہیں تھکایا، تاہم بس ڈرائیور روزانہ چند سو کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ کروشیا کی حکومت نے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کو سربیا کی سرحد سے لے کر ہنگری کی سرحد تک پہنچانے کے لیے عارضی بسیں چلانا شروع کر رکھی ہیں۔

دماگوئی مایسترووچ بھی ایک ایسے بس ڈرائیور ہیں جو دن کے وقت اسکول بس چلاتے ہیں اور رات کے وقت مہاجرين کے ليے خصوصی بس۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈرائیونگ سے نہیں تھکتے لیکن طویل انتظار سے ضرور اکتا جاتے ہیں۔ انتظار انہیں ہنگری کی سرحدی چوکی پر کرنا پڑتا ہے جہاں وہ مہاجرین کو دس بسوں کے قافلے کی صورت میں لے کر پہنچتے ہیں۔ لیکن وہ اس وقت تک مسافروں کو نہیں اتار سکتے جب تک ان سے اگلی بس میں موجود تمام مہاجرین کو ہنگری کی پولیس چھان بین اور جامہ تلاشی کے بعد بفرزون تک نہ پہنچا دے۔ ایک اور ڈرائیور کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل پانچ دن سے صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں اور رات بارہ بجے واپس گھر پہنچتے ہیں جب کہ عام دنوں میں وہ صرف آٹھ گھنٹے ہی کام کرتے ہیں۔

Kroatien Serbien Flüchtlinge bei Tovarnik 22.09.2015
تصویر: Reuters/B. Filipovic/Stringer

خصوصی بس چلانے والے ايک اور ڈرائيور مارکو راسک نے بتایا کہ ’’عموماﹰ مہاجرین کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہماری منزل ہنگری ہے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم انہیں تسلی دیتے ہیں کہ ہنگری میں صرف پڑاؤ ہے، اس کے بعد وہ آسٹریا چلے جائیں گے، تب وہ مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم راسک بدبودار ماحول اور حفظان صحت کے ناقص انتظامات کی وجہ سے اپنے حالات سے مطمئن نہیں۔

شام اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے بہتر مسقبل کی تلاش میں مغربی یورپ کا رخ کرنے والے لاکھوں تارکین وطن کا سفر مشکل اور تکلیف دہ ہے۔ اب تک سینکڑوں مہاجرین یورپ پہنچنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک مہاجرین ترکی اور یونان سے ہوتے ہوئے سربیا پہنچ رہے تھے جہاں سے وہ ہنگری سے ہوتے ہوئے جرمنی یا دیگر مغربی یورپی ملکوں میں پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ تاہم ہنگری کے قدامت پسند وزیر اعظم وکٹر اوربان نے سربیا کے ساتھ 175 کلومیٹر لمبی سرحد کو بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ مہاجرین اس کے بعد سے کروشیا کے راستے ہنگری میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

روزانہ ہزاروں مہاجرین کروشیا میں داخل ہو رہے ہیں۔ صرف گزشتہ جمعے کے روز کروشیا پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد دس ہزار تھی جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ کروشیائی حکومت ان سب کو ہنگری کی سرحد تک پہنچا دیتی ہے۔ لیکن اب ہنگری کے وزیراعظم نے کروشیا کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایسی صورت میں مہاجرین کا بحران اور ان کا مستقبل مزید پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔

بعض کروشیائی ڈرائیور ان مہاجرین کی پریشانیوں کو بھی سمجھتے ہیں۔ ایک ڈرائیور نے کہا ’’ہم بھی جنگ کی صورتحال سے گزرے ہیں، میں ان کو سمجھ سکتا ہوں۔ وہ پریشان اور تھکے ہوئے یہاں پہنچتے ہیں، بس میں ذرا آرام ملتا ہے تو سو جاتے ہیں۔ ان کی منزل بہتر مستقبل کی امید ہے، ہم تو اس راستے میں بس معمولی سی مدد کر رہے ہیں۔‘‘

مایسترووچ نہیں جانتے کہ یہ عارضی بس کب تک چلے گی، لیکن انہیں ایک خدشہ ہے ’’ہم نے سنا ہے ترکی کی خیمہ بستیوں میں بیس لاکھ مہاجرین ہیں، اگر وہ سب اسی راستے پر آ گئے تو۔۔۔‘‘