1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرکٹ کا لگان

29 ستمبر 2021

نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں نے جب کھیل بستے بغل میں دبا کر واپسی اختیار کی تو ہمیں اپنے بچپن کے استاد ظہیر صاحب یاد آ گئے۔ نہ ٹاس تھا، نہ ٹیموں کے رنگ برنگے کپڑے، یا اللہ خیر ہو! طرح طرح کے خیالات ذہن میں گردش کرنے لگے۔

https://p.dw.com/p/411lo
Pakistan | DW Urdu Blogger | Owais Tohid
تصویر: privat

خیال آیا کہ کہیں کچھ غیر ذمہ دار کھلاڑیوں نے کورونا کو تو گلے نہیں لگا لیا، کہیں وائرس تو کسی سے نہیں چمٹ گیا۔ یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں تو ماجرا کیا ہے؟ شاید اسی طرح کی صورتحال تھی، جب ہم بچپن میں ظہیر صاحب کے ٹیوشن  سینٹر پر پہلی اور اکلوتی مرتبہ گئے تھے۔ 

ہمارے آبائی شہر لاڑکانہ میں مشہور تھا کہ اگر کسی کو مستقبل سنوارنا ہے تو حساب کے مضمون کے لیے ظہیر صاحب سے پڑھنا لازمی ہے۔ قصہ مختصر جیسے ہی ان کے کمرے کے اندر قدم رکھا، لانبے قد، موٹی عینکوں کیساتھ ظہیر صاحب بلیک بورڈ پر ریاضی کی گتھیاں سلجھا رہے تھے اور کونے میں گلی کی کرکٹ کے ہمارے دو آوارہ ساتھی کھڑے تھے۔ 

کچھ وقفے کے بعد ظہیر صاحب نے پینسل ان کی انگلیوں کے درمیان دبائی، دو دو چھڑیاں ہاتھوں پر رسید کیں، صلواتیں الگ سنائیں۔ ہم سمجھے کہ آج کسی امتحان میں ناکامی کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن پتا چلا کہ یہ سزا گزشتہ ہفتے کی غلطیوں کی ہے، یاد انہیں آج آیا ہے۔ 

نیوزی لینڈ کا یوں خاموشی سے چلا جانا، نہ کسی کو وجہ بتانا، بس یہ کہہ دینا کہ کچھ ’’ان دیکھے اور ناقابل شناخت‘‘ خطرات کے پیش نظر واپس جا رہے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کے ان داتا، خفیہ ایجنسیاں، سب حیران پریشان تھے۔ سونے پہ سہاگہ  کہ انگلینڈ کی مردوں اور خواتین دونوں ٹیموں نے بھی اپنے دورے منسوخ کرنے کا اعلان داغ دیا۔ 

ان دنوں تو کوئی گھمبیر مسئلہ نہیں، آج کل تو ملک میں تشدد اور دہشت گردی کا راج نہیں۔ طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالے ہوئے بھی کئی ہفتے گزر گئے ہیں۔ اگر طالبان کی وجہ سے دورے منسوخ کرنا تھے تو پہلے کیوں نہیں کیے؟  

پھر پاکستانی کرکٹ کو اتنی بڑی سزا کیوں؟ ہمیں یوں محسوس ہوا، جیسے پاکستان کی کرکٹ ظہیر صاحب کے ٹیوشن سینٹر میں ایک کونے میں ہمارے آوارہ دوستوں کی طرح تنہا کھڑی ہے اور وہ آج کی غلطیوں کی نہیں بلکہ  گزشتہ ہفتے کی سزا بھگت رہی ہے۔ 

نیوزی لینڈ کے فیصلے نے پاکستانی کرکٹ کو بارہ سال پیچھے دھکیل دیا۔ دو ہزار نو میں سری لنکا ٹیم پر دہشت گردی کے حملہ کے بعد پاکستان کی کرکٹ نے دس سال کی جلاوطنی کاٹی۔ انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان کی سرزمین سے گویا روٹھ گئی، نہ کوئی غیر ملکی دورہ نہ کوئی کرکٹ کے ستارے۔ 

ایک زمانہ تھا کہ کراچی کے صدر کے علاقہ زینب مارکیٹ میں ویسٹ انڈیز کے رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، میلکم مارشل گھومتے پھرتے تھے، جنوبی افریقہ کے ایلن ڈونلڈ، کیلس، پولاک اور آسٹریلیا کے اسٹیو وا، رکی پونٹنگ لاہور اور پشاور میں ٹرک آرٹ سے سجے ہوئے رکشوں میں تصویریں کھینچواتے نظر آتے تھے۔ اظہرالدین، گنگولی، ٹنڈولکر اور جاڈیجا کے گرد ہوٹل میں شائقین لڑکے اور لڑکیوں کی ٹولیاں گھیرا ڈالے ہوتی تھیں۔ 

کرکٹ کی ماضی کی یادیں، خوبصورت یادیں، ناقابل فراموش قصے کہانیاں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نائن الیون کے بعد جس طرح پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی نے جڑیں پکڑیں، وہاں سماج میں رونقوں اور خوشیوں کے بجائے غموں اور آنسوؤں نے گھیرا ڈالا۔  

 اس گھٹن کے ماحول میں بھی کرکٹ ٹیم کی ہر جیت نے شائقین کے دلوں میں گھر بنائے۔ اس دوران پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ چیمپئن بنا، انڈیا کو فائنل میں شکست دے کر 2017ء  میں چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ممکن نہ ہو سکی۔ دہشت گردی نے دم توڑا تو پی ایس ایل کے میلے سجائے گئے۔ 

واٹسن، گیل، کٹنگ، اے بی ڈیویلئرز، میکملن، ڈیرن سیمی، ہاشم آملہ اور معین علی پاکستانی پلئیرز کیساتھ کرکٹ میدانوں میں آئے۔ بالآخر روٹھی انٹرنیشنل کرکٹ کی 2019ء  میں واپسی ہوئی۔ سری لنکا، جنوبی افریقہ، زمبابوے اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے پاکستانی تماشائیوں کے بیچ کھیل کے دنگل سجائے۔ 

نیوزی لینڈ کی ٹیم کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ تلخ یادیں وابستہ تھیں۔ انیس برس قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم کراچی میں اپنے ہوٹل سے نکل کر اسٹیڈیم جانے والی تھی کہ سڑک پار شیرٹن ہوٹل کے باہر دھماکا ہوا۔ پاکستان اور فرانس کے آگسٹا سمندری آبدوزوں کے مشترکہ منصوبے سے منسلک گیارہ فرانسیسی انجینیئر ہلاک ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کے سہمے ڈرے کھلاڑی وطن لوٹ گئے اور ان کی ٹیم لگ بھگ دو دہائیوں کے بعد واپس آئی تو اس دورہ کا اختتام اس تنازعے پر ہوا۔

چند برس قبل کی بات ہے، جب کرائس چرچ کی مسجد پر دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ بنگلا دیش کے کرکٹر اسی مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے، بڑی مشکل سےجان بچا کر بھاگے لیکن انہوں نے نیوزی لینڈ کا دورہ مکمل کیا۔ 

پاکستان نے کورونا کی وبا کے باوجود انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دورے کیے۔  لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بنگلا دیش اور پاکستان کے کھلاڑیوں کی جانیں قیمتی نہیں؟ 

انگلینڈ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دورے کی منسوخی کا فیصلہ کرکٹ بورڈ کا ہے، حکومت کا نہیں۔ کیسے مان لیا جائے کہ انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ نے پاکستان، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، اس کے بار ے میں حکومت کو اعتماد میں نہ لیا ہو؟  

برطانیہ کے سابق کپتان ڈیوڈ گاور اور مائیک آتھرٹن نے اپنے کرکٹ بورڈ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور طنزﹰا یاد دلایا کہ پاکستان نے انگلینڈ کا مشکل وقت میں ساتھ دیا اور آپ نے بدلے میں ان کے ساتھ یہ سلوک اپنایا۔ 

خود برطانیہ نے آئرلینڈ کے تنازعہ اور شورش کے باوجود تین ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔ دنیا بھر کی ٹیموں نے حصہ لیا۔ اسی کی دہائی میں انڈیا میں ورلڈ کپ بھی ہوا اور غیر ملکی ٹیموں کے دورے بھی جبکہ اس دور میں انڈیا کو پنجاب میں علیحدگی پسند سکھ تحریک کا سامنا تھا۔ 

1996ء میں سری لنکا میں تامل تنازعے کے باوجود اسے ورلڈ کپ کی میزبانی کی اجازت ملی تو پاکستان میں دنیا کی ٹیموں کو کرکٹ کھیلنے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ 

پاکستانی حکو مت کے کچھ وزراء اس میں کوئی سازش تلاش کر تے نظر آ رہے ہیں، جیسے یہ کوئی عالمی طاقتوں کے گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ ایک دو نے تو بیان داغ دیے کہ عمران خان کے امریکا کو فوجی اڈوں پر انکار کا نتیجہ ہو سکتا ہے، شاید یہ حقیقت نہ ہو۔

لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے کرکٹ کھیلنے کے انکار سے شائقین سخت مایوسی کا شکار ہیں اور پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ 

دوروں کی منسوخی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے برطانیہ سے ’’امپورٹ شدہ‘ سی ای او وسیم خان، جن کی وجہ شہرت غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان لانا تھا، اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ 

اب کرکٹ کے ذمہ دار اور بعض وزراء انگلینڈ کے طے شدہ اگلے برس کے دورے پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ تنقید کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے دورے کا وعدہ کیا ہے لیکن پورا ایک برس اور وہ بھی وعدے پر۔ اور کیا وعدہ پر اعتبار اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف تو نہیں؟ فیصلہ یہ خود کر لیں۔ 

دنیا بھر کے کرکٹر چاہے انگلینڈ کا اینڈرسن ہو یا جو روٹ یا انڈیا کا کوہلی، روہت شرما یا نیوزی لینڈ کا ولیمسن، ان سب ستاروں کو شائقین کی جانب سے چاہت ملتی ہے۔ قبائلی علاقوں کے پہاڑی علاقے ہوں یا سندھ کے صحرا یا فیشن ایبل کوٹھیوں والے علاقے ہوں یا کچی آبادیوں کی بھول بھلیوں میں رہنے والے شائقین، کرکٹ ان کے لئے زندگی کی علامت ہے۔ 

پاکستان میں کرکٹ کے رکھوالوں کو بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ کی کئی برس کی دوری کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ یا تو کرکٹ ٹیم اسی، نوے کی دہائی جیسی ہو جائے کہ دنیا بھر کی ٹیمیں پاکستان سے کھیلنے کے لیے بے تاب ہوں نہ کہ آپ کو التجا کرنا پڑے۔

پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف اس کرکٹ کے عروج کا حصہ رہے ہیں، جب پوری دنیا آپ کے اسٹار کرکٹرز اور اسٹائل پر مر مٹتی تھی۔ خان صاحب (عمران خان) جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار، سعید انور، انضمام اور ثقلین جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کے خلاف پوری دنیا کے اسٹار کرکٹر کھیلنا چاہتے تھے۔ کرکٹ کو میچ ونرز چاہیں اور بدقسمتی سے ہمارے پاس اب وہ کلاس نہیں۔ آسٹریلوی گریٹ بیٹسمین مارک وا نے ایک انٹرویو میں خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ دوسرے جنم میں وسیم اکرم کے روپ میں آنا چاہتے ہیں۔

اب کرکٹ  کے رکھوالوں اور ملک کے ذمہ داروں کی مرضی سازش ڈھونڈ لیں یا ماضی کی غلطیوں پر نظر ڈالیں۔ ماضی میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ایک تاریخ رہی ہے اور اسی کے نتیجے میں مغربی دنیا میں پاکستان کے بارے میں تصوراتی خیالات ہیں۔ تلخ تاریخ کے منفی تصوراتی خیالات کو اپنی پالیسیوں سے زائل کرنا پڑے گا نا کہ جوابی الزامات کی سازشی تھیوریاں بنائی جائیں۔ 

عامر خان کی فلم میں تو برطانوی سامراج کرکٹ میچ میں شکست کے بعد لگان معاف کر کے گاوں سے نکل گئے تھے۔ لیکن خطرہ لاحق ہے کہ کہیں آنے والے دنوں میں پاکستان ماضی کی پاداش میں کرکٹ کا لگان ادا نہ کرتا رہے۔