1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کریمیا کے بعد روس کی اگلی نظر کس پر؟

John Blau / امجد علی23 مارچ 2014

کریمیا کی روس میں باقاعدہ شمولیت کے بعد مبصرین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا صدر پوٹن اپنے آس پاس واقع دیگر خطّوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کون سے علاقے روس کا اگلا ہدف بن سکتے ہیں، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کا یہ جائزہ۔

https://p.dw.com/p/1BUUK
تصویر: DW

بالٹک کا علاقہ

بحیرہء بالٹک کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے ایسٹونیا، لیٹویا اور لیتھوینیا کو بالٹک ممالک بھی کہا جاتا ہے۔ 1940ء میں سوویت یونین نے ان تینوں ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہی تینوں ملکوں نے 1991ء میں سب سے پہلے سوویت یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا، اپنی آزادی کا اعلان کیا اور مغربی دنیا سے آن ملے۔ اب انہیں یورپی یونین اور نیٹو میں شامل ہوئے بھی کئی برس ہو چکے ہیں۔ تاہم تیل اور گیس کے معدنی خزانوں سے مالا مال ان علاقوں پر اب بھی روس کا سایہ ایک خطرے کی طرح منڈلا رہا ہے۔

پندرہ سو جزائر پر مشتمل اور گھنے جنگلات کے حامل چھوٹے سے ملک ایسٹونیا کے 1.3ملین شہریوں میں سے تقریباً ایک چوتھائی روسی نژاد ہیں۔ لیٹویا ذرا بڑا ہے اور سوویت دور میں یہاں بڑے پیمانے پر صنعتیں لگنے کی وجہ سے روسی تارکین وطن نے بڑی تعداد میں اس علاقے کا رخ کیا۔ لیٹویا کے دو ملین شہریوں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ آج بھی روسی زبان بولتے ہیں۔

تین ملین کی آبادی والے لیتھوینیا سوویت یونین سے الگ ہو کر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کرنے والا پہلا ملک تھا، جس کے آج بھی روس کے ساتھ قریبی اقتصادی روابط ہیں۔ روس اس ملک کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے، لیتھوینیا کی تقریباً اٹھارہ فیصد برآمدات ہمسایہ ملک روس میں جاتی ہیں۔ لیتھوینیا پر روس کی خاص طور پر نظر ہے کیونکہ اس کی سرحدیں روسی سرحدوں سے باہر واقع علاقے کالینن گراڈ کے ساتھ ملتی ہیں۔

Karte Moldawien und die ehemalige europäische Sowjetrepubliken Englisch
تصویر: DW

یورپی یونین کے ہمسایہ ممالک

بالٹک سے جنوب کی طرف واقع سفید روس، یوکرائن اور ری پبلک مولداویا ایک طرح سے روس اور یورپی یونین کے درمیان بفر زون کا کام دیتے ہیں۔ جہاں سفید روس روسی کسٹمز یونین میں شامل ہو چکا ہے، وہاں یوکرائن اور مولداویا کو یورپی یونین اپنے قریب لانے کی زبردست کوششیں کر رہی ہے۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد 1991ء میں آزاد ہونے والے سفید روس میں 1994ء سے مطلق العنان حکمران الیگذینڈر لُوکاشینکوکی حکومت چلی آ رہی ہے، جو ریاستی اداروں کو نجی ملکیت میں دینے کے سخت مخالف ہیں اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں۔ سفید روس کا روسی تیل پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ یورپ کی جانب آنے والے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بڑی حد تک سفید روس سے ہی ہو کر گزرتی ہیں۔

گزشتہ کئی مہینوں سے بد امنی کے شکار یوکرائن کے شہریوں میں زبان، تاریخ اور سیاست کے اعتبار سے گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یوکرائن کے تقریباً ایک تہائی شہریوں کی مادری زبان روسی ہے اور یہی وجہ ہے کہ روس کے ساتھ ملنے والے مشرقی یوکرائنی علاقوں میں روس کی حمایت بھی بہت زیادہ ہے۔

چار ملین کی آبادی والا مولداویا پہلے رومانیا کا حصہ ہوا کرتا تھا، پھر 1940ء میں اسے سوویت یونین نے زبردستی اپنے ساتھ ملا لیا۔ مولداویا کے یوکرائن کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقوں بالخصوص ٹرانس نستریا اور گیگازیا میں علیحدگی پسندانہ رجحانات ہیں۔ تقریباً دو لاکھ کی آبادی والے ٹرانس نستریا نے سوویت یونین ٹوٹنے سے بھی ایک سال پہلے 1990ء میں ری پبلک مولداویا سے الگ ہو کر اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ مولداویا پھر سے رومانیا کے ساتھ ملنے والا ہے۔ آج کل روس نہ صرف ٹرانس نستریا میں دی جانے والی پنشنوں میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے بلکہ اُس نے وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ 2006ء میں ٹرانس نستریا میں ہونے والے ایک متنازعہ ریفرنڈم میں 97 فیصد شہریوں نے وفاق روس میں شمولیت کے حق میں رائے دی تھی۔

ایک لاکھ پچپن ہزار کی آبادی کے حامل گیگازیا میں بھی روس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ رواں سال کے اوائل میں وہاں روس کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات اور صدر ولادیمیر پوٹن کی یوریشیا یونین میں شمولیت کے حوالے سے منعقدہ ایک ریفرنڈم میں تقریباً ننانوے فیصد رائے دہندگان نے یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کے معاہدے کی مخالفت کی۔

جہاں یورپی یونین مولداویا کو اپنے قریب لانے کی کوششوں میں ہے، وہاں روس مولداویا کی وائن کی برآمدات اور زرعی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اُس پر اپنی کسٹمز یونین میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

Karte Kaukasus Englisch
تصویر: DW

قفقاز کا خطّہ

یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع خطّہء قفقاز زبانوں اور ثقافتوں کے اعتبار سے دنیا کے متنوع ترین خطّوں میں شمار ہوتا ہے اور گوناگوں تنازعات کا گڑھ ہے۔ سوائے تیل سے مالا مال آذربائیجان کے اس خطّے کی کوئی بھی دوسری ریاست سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے معاشی طور پر سنبھل نہیں سکی ہے اور اسی لیے وہاں کے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

1999ء میں جارجیا سے الگ ہو کر اپنی آزادی کا اعلان کرنے والے علاقے ابخازیا کی آبادی تقریباً ڈہائی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے روس اس علاقے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے جبکہ 2010ء سے وہاں روسی طیارہ شکن راکٹ بھی نصب ہیں۔

جنوبی اوسیشیا کو روس نے 2008ء کی جارجیا جنگ کے بعد ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ ستر ہزار کی آبادی کے حامل اس علاقے کی معیشت آج کل بڑی حد تک روسی پیسے کی محتاج ہے اور یہ علاقہ گزشتہ کئی برسوں سے روس میں شمولیت کی کوششیں کر رہا ہے۔

انگوشیتیا وفاق روس کے اندر ایک خود مختار جمہوریہ ہے، جس کی چار لاکھ کی آبادی زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

1.25 ملین کی آبادی والے چیچنیا نے 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹنے پر اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ تین سال بعد ہی روس نے وہاں اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے اپنے دستے بھیج دیے تھے۔ پہلی چیچنیا جنگ 1996ء میں روس کی شکست پر منتج ہوئی۔ 1999ء سے روسی دستے ایک بار پھر چیچنیا میں ہیں۔ چیچنیا کی تعمیر نو کے لیے دی جانے والی روسی رقوم کے باوجود اس خطّے میں بے روزگاری اور غربت کا دور دورہ ہے۔

انگوشیتیا اور چیچنیا کی طرح داغستان بھی وفاق روس کے اندر ایک خود مختار جمہوریہ ہے۔ اس کے تقریباً تین ملین شہریوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ صرف 3.5 فیصد آبادی روسی نژاد ہے تاہم سرکاری زبان پھر بھی روسی ہی ہے۔ داغستان کے حکام کو، جو بے حد بدعنوان بھی ہیں، بڑی حد تک ماسکو نواز خیال کیا جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید