شمالی کشمیر میں جھیل وولر اور جہلم کے پاس رہنے کی وجہ سے ہم نے تو ہمیشہ پانی کی فراوانی دیکھی تھی۔ ہمارے والدین تو کہتے ہیں کہ وہ پینے کے لیے براہ راست جہلم کا پانی ہی بغیر ابالے پیتے تھے۔ اس پانی کی وجہ سے گھروں کے آس پاس کچن گارڈن بھی سیراب ہوتے تھے۔ وافر مقدار میں سبزی بھی دستیاب ہوتی تھی اور بازاروں میں قیمتیں بھی کنٹرول میں رہتی تھیں۔ لیکن آب و ہوا کا بحران اس روایت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
مگر ہائے۔ کشمیر میں ندی نالے، تالاب پاٹ دیے گئے ہیں۔ شہر سرینگر کو کبھی مشرق کا وینس کہا جاتا تھا کیونکہ دریا اور ندی نالے ٹرانسپورٹ کا اہم ذریعہ ہوتے تھے۔ ان کو بچانے کے بجائے ان کو پاٹ کر سڑکیں بنائی گئیں۔ سوپور میں پانی کی ایک چھوٹی سی جھیل بھوگ پر شاپنگ مال کھڑا ہے۔
اب تو نل بھی پانی کو ترستا رہتا ہے۔ گھروں کے ساتھ ساتھ کھیتوں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور یہ کمی جزوی طور پر موسم سرما میں کم برف باری اور موسم گرما میں کم بارش کی وجہ سے ہے۔ دنیابھر کے دیگر خطوں کی طرح کشمیر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متاثر ہو رہا ہے۔ تاہم جس تیزی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اس خطے پر مرتب ہو رہے ہیں، شاید ہی جنوبی ایشیا کے کسی اور خطے پر ہو ر ہے ہوں گے۔
چند برس قبل جب برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں پانی کے بحران کے بارے میں پڑھا کہ وہاں نہانا، دھونا ایک لگژری ہے اور میونسپل حکام نے اس پر پابندی لگا دی ہے تو یقین نہیں آیا تھا۔ جنوبی افریقہ کی ایک دوست نے بتایا کہ کیپ ٹاؤں میں کچن کے برتنوں کو دھونے کے لیے پانی کا استعمال منع کردیا گیا ہے، اس لیے لوگ ڈسپوزیبل برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں، یہ سن کر بھی تعجب ہوا اور سوچ میں پڑ گئی کہ کیا پانی کی اس قدر کمی بھی ہو سکتی ہے؟
مگر اب تو ہر شہر ساؤپاولو اور کیپ ٹاؤن بنتا جا رہا ہے۔کشمیر کے پانی اور موسمیاتی بحران کا اثر صرف اس کے باشندوں پر ہی نہیں بلکہ ان دریاؤں سے سیراب ہونے والے جنوبی ایشا کے ایک وسیع و عریض خطے پر پڑنا شروع ہو چکا ہیں۔
مزید یہ کہ کشمیر ان اثرات کا سامنا کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بے ترتیب موسمی پیٹرن اور گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا کشمیر کے موسم کو نئی شکل دے رہا ہے اور اس کے سماجی و اقتصادی تانے بانے کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اس کی معیشت جو روایتی طور پر زراعت، باغبانی اور مویشی پالنے اور ماہی گیری جیسی سرگرمیوں پر منحصر ہے، ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تباہ ہو رہی ہے۔ سخت سردیوں میں کم برفباری اور بارش میں اضافہ، کم بارش کے ساتھ موسم گرما میں انتہائی درجہ حرارت صرف کاشتکاری کے شیڈول میں خلل نہیں ڈال رہا ہے بلکہ اس کی وجہ سے کھڑی فصلوں میں بیماریاں پھیلنے کے لیے حالات بھی سازگار ہوتے جارہے ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اس خطے میں غذائی عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھ گیا ہے اور اسی سبب غذائی اشیا کی درآمدات بھی بڑھ گئی ہیں۔ اب کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔
پھلوں کے باغات کے لیے مشہور کشمیر میں ایک اور چیلنج درپیش ہے اور وہ ہے پھل دار درختوں پر کیڑے مار دواؤں کا بڑھتا ہوا استعمال۔
بدلتے موسمی حالات کی وجہ سے زیادہ تر باغبان پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے کیمیکلز کے استعمال میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے نہ صرف ماحول پر اثر پڑتا ہے بلکہ کسانوں کے مالی بوجھ میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جنہیں اب اپنے باغات میں پیداواری سرمایہ کاری کے بجائے کیڑوں پر قابو پانے کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنے پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے فوڈ پروسیسنگ، پیکیجنگ اور ڈسٹری بیوشن کے شعبے، جو زرعی پیداوار کی مستقل فراہمی پر انحصار کرتے ہیں، بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
اس ماحولیاتی بحران سے نبرد آزما ہونے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ سماجی سطح پر بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ پالیسی سازوں سے لے کر کسانوں اور شہریوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے لازم ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے زرعی ورثے کی حفاظت کرنے والی حکمت عملی ترتیب دیں اور آنے والی نسلوں کے پائیدار مستقبل کی ضمانت فراہم کریں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔