کشمیر پر رپورٹنگ، ایوارڈ بھارتی صحافی کے نام
16 مارچ 2011اے ایف پی فاؤنڈیشن کے مطابق دلناز بوگا کو ایک سرٹیفیکیٹ کے علاوہ تین ہزار یورو نقد انعام دیا جائے گا۔ ایشیا میں یہ ایوارڈ ان صحافیوں کے لیے رکھا گیا ہے، جو مشکل اور سخت حالات میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔ اے ایف پی کے شعبہء ایشیا کے ڈائریکٹر Eric Wishart کا کہنا ہے، ’ایک صحافی کے لیے کشمیر کی رپورٹنگ کرنا انتہائی مشکل کام ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’ایک ایسا معاشرہ، جہاں مردوں کا غلبہ ہو، وہاں ایک عورت ہوتے ہوئے دلناز نے انتہائی معاندانہ ماحول میں کشمیر کی صورتحال کے انسانی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ خاص طور پر وہاں کے نوجوانوں پر پڑنے والے اثرات پر رپورٹ کرنا ایک مشکل کام تھا‘۔
بوگا کا کہنا ہے کہ ایسی جگہوں پر کام کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔ بھارت اور آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے والی دلناز بوگا کہتی ہیں، ’ہم نے تحریروں کے ذریعےحقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان لوگوں کی آواز پیش کی ہے، جن کی کوئی نہیں سنتا‘۔
سری نگر میں ایک سال کام کرنے سے پہلے ممبئی میں رہنے والی دلناز بوگا نے سڈنی کی ایک یونیورسٹی سے Peace and Conflict Studies میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے کشمیر میں ’بچوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نفسیاتی اثرات‘ جیسے موضوع پر بھی کام کیا تھا۔ دلناز بوگا کا مزید کہنا ہے،’بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہو سکتا ہے لیکن اسے اب بھی اپنے شہریوں اور ان کی آزادی رائے کا احترام کرنے لے لیے ایک طویل راستہ طے کرنا ہے‘۔
اے ایف پی فاؤنڈیشن کی طرف سے یہ ایوارڈ ایشیا میں 2008ء میں متعارف کروایا گیا تھا۔ کیٹ ویب اے ایف پی کی ایک مایہ ناز صحافی تھیں، جنہوں نے خواتین کی آواز کو انٹرنیشنل جرنلزم میں متعارف کروایا تھا۔ 2008ء میں یہ ایوارڈ پاکستانی صحافی مشتاق یوسف زئی کو دیا گیا تھا، جنہوں نے پاک افغان سرحد پر صحافتی فرائض سر انجام دیے تھے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی