’کفار کے دیس جانا گناہ کبیرہ‘، داعش کا مہاجرین کے لیے پیغام
10 ستمبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ شام اور عراق میں سرگرم انتہا پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے دابق نامی اپنے میگزین میں لکھا ہے کہ یورپ جانے والے یہ افراد اپنے بچوں کو لادینیت، منشیات، الکوحل اور ’جنسی طور پر بے راہرو معاشرے‘ میں لے جا رہے ہیں۔ داعش کے مطابق یوں یہ لوگ ’گناہ کے مرتکب‘ ہو رہے ہیں۔ داعش نے اپنے اس تازہ میگزین میں مزید لکھا ہے کہ ان افراد کو یورپ کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسی شدت پسند گروہ کی طرف سے کی جانے والی خونریز کارروائیوں کے نتیجے میں بالخصوص شام کی بہت بڑی آبادی مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ بے گھر افراد محفوظ مقامات کا رخ کر رہے ہیں جبکہ لاکھوں شہری اس کوشش میں ہیں کہ وہ پرامن یورپی ممالک پہنچ جائیں تاکہ ان کی زندگیوں میں بہتری آ سکے۔ شام سمیت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جنگی حالات نے مجموعی طور پر کئی ملین انسانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
داعش کے جنگجو شام اور عراق کے علاوہ لیبیا میں بھی فعال ہو چکے ہیں۔ یہ شدت پسند سینکڑوں افراد کو ہلاک بھی کر چکے ہیں۔ اس صورتحال میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ پہنچ رہی ہے، جس کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔
تاہم یورپی ممالک میں ان مہاجرین کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود یُنکر نے البتہ مہاجرین کے مسئلے کو ’مذہب اور عقائد سے بالاتر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان مہاجرین کی یورپ میں بہبود کے لیے ایک طویل المدتی منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
داعش کے دابق نامی جریدے میں لکھا گیا ہے، ’’افسوس ہے، لیبیا اور شام کے کچھ باشندے اپنے بچوں کی زندگیوں اور مستقبل کو خطرات میں ڈالنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔‘‘ اس میگزین میں مزید کہا گیا ہے کہ ’لادینیت اور بے حیائی کے اصولوں پر چلنے والے یورپی ممالک نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کی تھیں۔ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں‘۔
داعش نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یورپ فرار ہونے والے شامی افراد کا تعلق صدر بشار الاسد یا کردوں کے زیر انتظام علاقوں سے ہے۔ داعش نے اس مہاجرت کو ایک بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے، ’’یہ بات سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دولت اسلامیہ کو دانستہ طور پر چھوڑ کر کافروں کے ممالک کی طرف جانا گناہ کبیرہ ہے۔‘‘
داعش نے مبینہ طور پر تین سالہ کرد بچے ایلان کردی کی تصاویر کو دوبارہ شائع کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یورپی ممالک میں ’مسلمانوں کا یہ حال‘ کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں اس بچے کی لاش ترکی کے ایک ساحل سے ملی تھی، جس کے بعد یورپ بھر میں مہاجرین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار اور بھی زیادہ ہو گیا تھا۔