1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلیسائی شخصیات کے ہاتھوں جنسی زیادتیاں: تحقیقی مطالعہ روک دیا گیا

10 جنوری 2013

جرمنی میں کلیسائی شخصیات کے ہاتھوں ماضی میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات سے متعلق ایک جامع تحقیقی مطالعے کا جو منصوبہ دو سال قبل شروع کیا گیا تھا، وہ روک دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/17H6J
تصویر: picture-alliance/dpa

اس حوالے سے تازہ صورت حال کو شیشے کی کرچیوں کا ڈھیر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر کرِسٹوف شٹراک کا لکھا تبصرہ:

دو سال قبل شروع کیے گئے اس مطالعے کے دوران کلیسائی شخصیات کی طرف سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کی جامع چھان بین کی جانا تھی اور گزشتہ کئی عشروں کی بہت سی دستاویزات کا بغور جائزہ لیا جانا تھا۔ لیکن اب جرمنی کے کیتھولک بشپس اور جرائم سے متعلقہ امور کے مشہور ترین جرمن ماہر کرسٹیان فائفر کے درمیان اختلافات بہت زیادہ ہو جانے کے بعد یہ منصوبہ کم از کم اپنی موجودہ شکل میں ناکام ہو گیا ہے۔

کرسٹیان فائفر شمالی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے کریمینالوجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں جو اس اسٹڈی کے حوالے سے سنسرشپ اور کم تر محققانہ دلچسپی کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جرمن کیتھولک بشپس کانفرنس کے مطابق فائفر کا طرز ابلاغ درست نہیں اور دوطرفہ اعتماد کا ماحول تباہ ہو چکا ہے۔ بشپس کانفرنس کے مطابق اب یہ پروجیکٹ دیگر ماہرین کی مدد سے جاری رکھا جائے گا۔

Symbolbild Missbrauch in der Kirche
تصویر: picture-alliance/ANP

اس منصوبے کو دیگر ماہرین کی مدد سے جاری رکھنا اس لیے مشکل ہو گا کہ تحقیقی معیارات کا خیال تو کسی بھی دوسرے ماہر کو بھی رکھنا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ متعلقہ ماہر کو سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑے یا اسے سختی سے یہ بتایا جائے کہ کون کون سے معلومات عام کی جا سکتی ہیں۔ جرمن کیتھولک بشپس کانفرنس کو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس بارے میں اس کا موقف سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔

کرسٹیان فائفر واضح کر چکے ہیں کہ وہ کیتھولک چرچ کو کوئی قربانی کا بکرا نہیں سمجھتے اور بات جس تشدد یا جنسی زیادتی کی ہے، وہ عام گھرانوں یا گھرانوں جیسے حالات میں تو کلیسائی اداروں سے بھی زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ فائفر کے مطابق ایسے ہی ایک مطالعے کے بعد ثابت ہو چکا ہے کہ جرمنی میں پروٹسٹنٹ کلیسا کو درپیش مسائل تو کیتھولک چرچ کو درپیش مسائل سے بھی زیادہ ہیں اور پھر انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ کیتھولک کلیسا کی مذہبی شخصیات اور دیگر کارکنوں کی طرف سے جنسی زیادتیوں کے واقعات گزشتہ 20 سال سے واضح طور پر کم ہو چکے ہیں۔

جرمن کیتھولک چرچ کے لیے اس کے اور کرسٹیان فائفر کے راستوں کا الگ ہو جانا غصے کا باعث بننے والا ایک دھچکا ہے۔ بات صرف متاثرین کے لیے انصاف اور مادی یا نفسیاتی مدد کی نہیں ہے بلکہ کلیسا کی معاشرتی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں کے دوران بچوں سے جنسی زیادتیوں کے بے شمار واقعات کے قریب تین سال پہلے منظر عام پر آنے کے بعد بات تو اعتماد کی ہے۔

جرمنی میں یہ تحقیقی مطالعہ کیتھولک کلیسا سے وابستہ شخصیات کی طرف سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کی دنیا بھر میں کی جانے والی چھان بین کے عمل کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے جرمن بشپس کے فیصلے دیگر ملکوں میں اسی عمل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جرمن کیتھولک بشپس کو یہ ذمہ داری بھی قبول کرنا ہو گی، ضمیر کی آواز کے مطابق ٹھوس موقف اور شفافیت کے ساتھ!

C. Strack, mm / S. Dege, ij