’کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف پہننے پر پابندی جائز‘
27 فروری 2020جرمن ریاست ہیسے میں وکلاء سمیت تمام عدالتی عملے پر پابندی عائد ہے کہ کوئی کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف نہ پہنے۔ اس پابندی کے خلاف ایک خاتون نے جرمنی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس خاتون کا موقف تھا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے عائد کردہ یہ پابندی جرمن دستور سے متصادم ہے، تاہم دستوری عدالت نے اس کے برخلاف فیصلہ دیا۔
جرمنی: حجاب سے متعلق بحث پُر تشدد لڑائی کا سبب بن گئی
ہالینڈ میں بھی برقعے پر پابندی، عملدرآمد شروع
جرمنی کی اس اعلیٰ ترین عدالت کے مطابق کمرہء عدالت میں وکلاء اور ٹرینیز کو ہیڈاسکارف پہننے سے روکنا غیرآئینی عمل نہیں ہے۔ مراکشی خاتون کا موقف تھا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے عائد کردہ اس پابندی کی وجہ سے اس کے ذاتی اظہار کے حق اور آزادیء مذہب کے اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
تاہم دستوری عدالت نے کہا کہ ہیڈاسکارف نظریے اور مذہب کی علامت ہے، جب کہ جرمن دستور کے مطابق ریاست کو کسی نظریے یا مذہب کے اعتبار سے غیرجانب دار رہنا ہے، اس لیے ریاستی قانون ساز ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی عائد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
اس عدالتی فیصلے میں کہا گیا، ''ریاست پابند ہے کہ وہ غیرجانب دار رہے، مگر ریاست غیرجانب دار نہیں رہ سکتی اگر اس کے حکام خود کو غیرجانب دار ظاہر نہ کریں، کیوں کہ ریاست کی عکاسی افراد کے ذریعے ہوتی ہے۔‘‘
اس معاملے پر جیوری میں فقط ایک جج اُلرش مائدوسکی نے اس فیصلے کے خلاف ووٹ دیا۔ مائدوسکی کا کہنا تھا کہ ان کی نگاہ میں آزادیء مذہب کو دستوری قانون کے تحت جانچا نہیں جا سکتا۔
واضح رہے کہ سن 2017 میں ہیسے صوبے میں مراکشی نژاد جرمن خاتون نے وکالت کی قانونی تربیت لینا شروع کی، تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف پہن کر نہیں آ سکتیں۔ انہوں نے ان ہدایات کے خلاف ہیسے صوبے کی اعلیٰ انتظامی عدالت سے رجوع کیا، مگر مقدمہ ہار گئیں۔ اس کے بعد وہ یہ معاملہ جرمنی کی دستوری عدالت میں لے گئیں۔
کیٹ مون ماتیر، ع ت، ع ا