کنڑ، ننگرہار میں ہلاکتوں کا ذمہ دار پاکستان، کرزئی
27 جون 2011افغان صدر نے ان ہلاکتوں کے سلسلے میں پاکستانی سکیورٹی دستوں کو بالواسطہ طور پر قصور وار قرار دیتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغان علاقوں میں یہ حملے بند ہونے چاہییں۔ حامد کرزئی کے مطابق، ’’اگر ان حملوں کا ذمہ دار پاکستان نہیں، تو پاکستانی حکومت کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کون ہے؟‘‘
کابل میں صدر کرزئی کے دفتر کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت کو یہ بات اچھی طرح پتہ ہونی چاہیے کہ اگر معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جائے گا، تو افغان حکومت اس پر اپنا رد عمل بھی ظاہر کرے گی۔
افغان سکیورٹی حکام کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پاکستانی علاقوں سے افغان علاقوں میں مبینہ طور پر 470 راکٹ فائر کیے جا چکے ہیں۔ کابل میں ان حکام کے بقول ان راکٹ حملوں میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم 12 بچے بھی شامل ہیں۔
افغان سرحدی دستوں کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر پاکستانی علاقوں سے افغانستان کے جن علاقوں کا نشانہ بنایا گیا، وہ ایسے مقامات ہیں، جو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دستوں نے خالی کیے تھے۔ پھر وہاں سے مقامی شہری آبادی کی نقل مکانی کے بعد ان سرحدی علاقوں پر مبینہ طور پر پاکستانی طالبان نے قبضہ کر لیا۔
افغان بارڈر گارڈز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں کے بعد نیٹو دستوں اور افغان سکیورٹی فورسز نے مل کر پاکستانی علاقے سے ان حملوں کے رد عمل میں جوابی فائرنگ بھی کی۔ تاہم پاکستانی فوج اور خود افغانستان متعینہ نیٹو کے فوجی دستوں کے ترجمان نے ایسے کسی بھی واقعے کی اطلاع کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر یا مشترکہ سرحدی علاقے میں کوئی جھڑپ نہیں ہوئی۔
اسی دوران کابل میں افغان وزیر دفاع محمد ظاہر عظیمی نے کنڑ اور ننگرہار میں افغان شہریوں کی حالیہ ہلاکتوں کی ذمہ داری پاکستان کے سر ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری کو سرحد پار سے ان حملوں کو رکوانا چاہیے اور اب تک ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی تلافی کرنی چاہیے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد