کوئٹہ میں بڑا دہشت گردانہ حملہ ناکام بنا دیا گیا
18 مئی 2018بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے بقول فرنٹیئر کور کے سیکٹر ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والے پانچوں خودکش حملہ اور پاکستانی فوج کی وردی میں ملبوس تھے۔ جائے وقوعہ پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آج سیکیورٹی اہلکاروں نے کوئٹہ میں شدت پسندوں کا ایک بہت بڑا حملہ ناکام بنایا ہے۔ ایف سی کے سیکٹر ہیڈ کوارٹر پر بیک وقت پانچ خودکش حملہ آوروں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا اورایک حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی کے ساتھ سیکٹر ہیڈ کوارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔‘‘
سرفراز بگٹی نے بتایا کہ خودکش حملہ اوروں نے اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے دستی بموں کا استعمال بھی کیا جس سے چار سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے: ’’خودکش حملہ آور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز کے اندر اس مقام تک پہنچنا چاہتے تھے جہاں اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کی بھاری نفری موجود تھی ۔۔۔ اگر حملہ آور اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو سکتا تھا۔‘‘
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کا یہ تازہ حملہ سکیورٹی فورسز کی اس بڑی کامیابی کا رد عمل ہے جس میں داعش خراسان کا آپریشنل کمانڈر سلمان بادینی اپنے دو ساتھیوں سمیت ہلاک کیاگیا تھا۔
پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جارے کیے گئے ایک بیان کے مطابق کوئٹہ میں سیکٹر ہیڈ کوارٹرز پر ہونے والے حملے میں ہلاک کیے گئے پانچوں حملہ آوروں کی شناخت افغان مہاجرین کے طور پر ہوئی ہے۔ ائی ایس پی آر کے بقول حملے کے بعد سیکٹر ہیڈ کوارٹرز کو کلیئر کردیا گیا ہے اور اب صورتحال قابو میں ہے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکارعاطف سہیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شدت پسندوں نے سیکٹر ہیڈ کوارٹرز کے داخلی حصے میں جس گاڑی کو دھماکے سے اڑایا اس میں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔ ان کے بقول، ’’پانچوں خودکش حملہ آور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز تک اس گاڑی میں پہنچے جو دھماکے سے اڑائی گئی۔ چونکہ حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھے اس لیے ایئرپورٹ روڈ تک پہنچنے میں انہیں زیادہ مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔‘‘ عاطف سہیل کے مطابق،‘‘ خودکش حملہ آور سکیورٹی حکام کو نشانہ بنا کر اپنا بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کی مذموم کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔‘‘
ایف سے سیکٹر ہیڈ کوارٹر پر ہونے والے اس حملے میں موٹر وے کا ایک اسسٹنٹ پیٹرولنگ افسر محمد ادریس بھی ہلاک ہوا ہے۔ سکیورٹی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والا اہلکاراس وقت خود کش حملے کا نشانہ بنا جب مین گیٹ پر اس نے گاڑی میں سوار خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی۔
شدت پسندوں کے حملے کے بعد کوئٹہ میں تمام اہم سرکاری عمارتوں اور حساس علاقوں کی سیکیورٹی میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
دفاعی امور کے ایک سینیئر تجزیہ کار، میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کے بقول بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا رد عمل آج ہونے والے حملے سے بھی سخت سامنے آ سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بدلتے ہوئے عالمی پس منظر میں سکیورٹی کے تمام انتظامات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے حالات میں دن بدن غیر متوقع تبدیلی سامنے آ رہی ہے اور اس وقت افغانستان میں جو شورش ہے اس کے اثرات بھی براہ راست پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں یہاں ایک منظم منصوبے کے تحت بد امنی پھیلا رہی ہیں اور ان کا بنیادی مقصد قیام امن کو تباہ کرنا ہے۔‘‘
عمر فاروق کے بقول، ’’میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ داعش جیسی بین الاقوامی شدت پسند تنظیم افغاستان کی طرح اب پاکستان میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس وقت یہاں ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو سکیورٹی اداروں اور عوام کے درمیان دوریاں ختم کرنے کے لیے سودمند ثابت ہوں۔‘‘ میجر ( ر) عمر فاروق کے مطابق شدت پسندوں نے عام رہائشی علاقوں خفیہ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں اور حملوں کے بعد وہ وہاں روپوش ہو جاتے ہیں، اسی لیے جب تک عوام کا بھرپور تعاون سکیورٹی اداروں کو حاصل نہیں ہوگا عسکریت پسندی کے خلاف جاری آپریشنز کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔
ایف سی کے سیکٹر ہیڈ کوارٹرز پر ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی تحریک طالبان سے وابستہ درہ آدم خیل گروپ نے قبول کی ہے۔ اس شدت پسند تنظیم نے کہا ہے کہ فوجی مرکز پر حملہ سکیورٹی فورسز کی ان کارروائیوں کا رد عمل ہے جو ٹی ٹی پی کے ارکان کے خلاف عمل میں لائی جا رہی ہیں۔