کوئٹہ میں صاف پانی کی شدید کمی کو کس طرح دور کیا جائے؟
12 اگست 2020ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی کے یہ دوارنیے نا صرف طویل ہو گئے ہیں بلکہ ان میں شدت بھی آ گئی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خشک سالی کے بعد کچھ موسموں میں کھل کر بارش و برف باری ہوتی ہے مگر اس پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ پہاڑی علاقوں میں جنگلات کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ موسلا دھار بارشوں کے بعد سیلاب کو روکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ پانی یا برف کو زیر زمین جذب ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث پینے کے صاف پانی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ کوئٹہ کے متعدد علاقوں میں گزشتہ دو سال سے واسا (واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی) کی جانب سے پانی کی سپلائی بند ہے اور عوام ٹینکر مافیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔
کوئٹہ میں پانی کا ایک ٹینکر 800 سے 1000 روپے میں ملتا ہے، جو زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ دن کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اوسط درجے کے گھرانوں کے لیے اتنا مہنگا پانی خریدنا ممکن نہیں۔ بروری اور اطراف کے چند علاقوں کے علاوہ باقی تمام جگہ واسا نے پانی کی سپلائی کئی سالوں سے بند کی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ سب ٹینکر مافیا کے ساتھ باقاعدہ ملی بھگت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
کیونکہ عوام کے شدید احتجاج کے باوجود واسا یا صوبائی حکومت کی طرف سے اس مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں گئی۔ دوسری جانب ٹینکر مافیا اپنا کاروبار چلانے کے لیے پمپوں کے ذریعے زمین میں بہت گہرائی سے پانی کھینچتے ہیں، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور آس پاس کی زرخیز زمین تیزی سے بنجر ہو رہی ہے۔
مقامی بزرگ راہنما زورگ بزدار کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں کوئٹہ کے لیے پانی کے مسائل کا ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ برف پگھلنے اور بارشوں سے جو پانی حاصل ہوتا ہے، اس کو ایک منظم طریقے سے اسٹور کیا جائے اور پھر صاف کر کے استعمال میں لایا جائے۔
مچھ اور کولپور کے درمیان وہ پہاڑی نالہ، جو آگے جا کر دریائے بولان میں جا ملتا ہے۔ اگر اس پر ڈیم بنا دیا جائے تو اس سے کوئٹہ کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہنہ اڑک سے، جو پانی آ تا ہے، اس کو بھی چھوٹے ڈیم میں ذخیرہ کر کے منظم طریقے سے استعمال کیا جا سکتا۔
خوجک، کوہ مردار اور کولپور کے پہاڑوں پر اس سال مارچ تک برف تھی مگر گرمی بڑھتے ہی یہ برف تیزی سے پگھلی اور زیر زمین جذب ہونے کی بجائے برف کا سارا پانی ضائع ہو گیا اور گزشتہ تین ماہ سے کوئٹہ کو شدید پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر نایاب سمندری حیات کو درپیش خطرات
پاکستان میں آبی قلت، کیا کوئی حل ہے؟
گزشتہ ایک ہفتے سے بولان اور اطراف کے پہاڑی سلسلوں پر شدید طوفانی بارشیں ہوئیں اور بی بی نانی پل ٹوٹنے سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع کو گیس کی سپلائی بھی کئی روز سے بند ہے۔ مگر ڈیم یا پانی کے دیگر ذخائر کی عدم موجودگی کے باعث یہ سیلابی پانی کچھ ہی دن میں ضائع ہو جائے گا، جو بلاشبہ مقامی افراد کی ضرورت کم از کم چھ ماہ تک پوری کر سکتا تھا۔
اس حوالے سے بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کو ایک طویل عرصے سے صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ واسا کوئٹہ پانی کی فراہمی اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی روڈ میپ بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے زیادہ تر مقامی ٹیوب ویل غیر فعال ہیں۔ واسا حکام کے مطابق شہر میں 2500 سے زیادہ سرکاری اور نجی ٹیوب ویل چل رہے ہیں جبکہ روزانہ پانی کی کھپت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 94 94 ٹیوب ویلز درکار ہیں۔
اس کے لیے فنڈز مختص کرنے کے بعد ڈیمز کی تعمیر اور پرانے آب پاشی کے کاریز سسٹم کو بحال کرنے پر توجہ دی جائے۔ ساتھ ہی کوئٹہ میں پرائیویٹ بورنگ کرنے والوں پر سختی کی جائے اور باقاعدہ لائسنس یافتہ افراد یا کمپنیاں مخصوص علاقوں میں بورنگ سے پانی نکالیں کیونکہ یہ عمل زمین کو تیزی سے چھلنی کر رہا ہے۔
واسا کوئٹہ میں کئی برس تک خدمات سر انجام دینے والے سید لیاقت علی کے مطابق حکومت ِ بلوچستان کوئٹہ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق اربن پلاننگ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے یہاں پانی کا بحران شدید تر ہو تا جا رہا ہے۔ بلوچستان قدرتی طور پر ایک ''ڈراٹ پرون‘‘ ایریا ہے، جہاں پانی کی قلت کوئی نئی بات نہیں۔
برطانوی راج میں تعمیر ہونے والی ہنہ جھیل اور اس سے منسلک آب پا شی کا نظام آج بھی ایک بڑے علاقے کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ٹینکر مافیہ نے ہنہ جھیل کو بھی نہیں بخشا اور دو برس قبل پمپوں سے پانی نکالنے کے باعث یہ جھیل مکمل طور پر خشک ہو گئی تھی۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نا صرف پرانے کاریز سسٹم کو بحال کیا جائے بلکہ جلد از جلد نئے ڈیم اور پانی کے ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی غیر قانونی بورنگ کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔