کوئی خفیہ ملاقات نہیں کروائی: پاکستانی فوج کے سربراہ
2 جولائی 2010پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایسے تمام الزامات مسترد کردئے ہیں، جن میں کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے افغان صدرحامد کرزئی اورافغان طالبان کے حقانی گروپ کےاعلیٰ کمانڈرسراج الدین حقانی کےمابین ایک خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔
بدھ کے دن جنرل کیانی کے دفترسے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئےایسے دعوؤں کو رد کردیا گیا، جن میں کہا جا رہا ہے کہ حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی اور افغان صدر کے مابین خفیہ ملاقات کابل میں منعقد کروائی گئی تھی۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل کیانی نےافغانستان کے اپنے حالیہ دو دوروں کے دوران افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پرتبادلہ خیال کیا۔ اس بیان میں جنرل کیانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کے گزشتہ دونوں دوروں کے دوران افغانستان میں غیرملکی افواج کے سابقہ کمانڈرجنرل سٹینلے میک کرسٹل بھی وہاں موجود تھے۔ تاہم اس بیان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ جنرل کیانی نے یہ ملاقاتیں کب کی تھیں۔
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بے اعتمادی کا عنصر نمایاں رہا ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے کےدوران فریقین کے مابین اعتماد سازی کی فضا کافی بہتر ہوئی ہے۔ مارچ ہی میں افغان صدرحامد کرزئی نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستانی کوششوں کو اہم قرار دیا تھا۔
دوسری طرف افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے کہ انہوں نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے حامی نیٹ ورک کے کسی جنگجو سے ملاقات کی ہے۔ کرزئی کے ترجمان وحید عمر نے کہا ہے کہ یہ تمام خبریں جھوٹی ہیں کہ افغان صدر نے حقانی گروپ کے رہنما سے دوبدو ملاقات کی ہے۔ دوسری طرف حقانی گروپ نے بھی کسی ایسی ملاقات کی تردید کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جنگجوؤں کا یہ حقانی گروپ پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سرگرم ہے۔ ایک اہم افغان جنگی سردارجلال الدین حقانی اس گروہ کا بانی تھا جبکہ آج کل اس کا رہنما اُس کا بیٹا سراج الدین حقانی ہے۔ مشرقی افغانستان میں غیر ملکی اتحادی افواج کے لئے یہ جنگجو گروہ سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان پرعالمی دباؤ ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف عسکری کارروائی شروع کرے، جہاں مبینہ طور پر حقانی گروہ بھی موجود ہے۔ پاکستان شمالی وزیرستان میں عسکری کارروائی کرنے سے ہچکچا رہا ہے کیونکہ یہاں سے پاکستان پر حملے نہیں کئے جا رہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے حملے کے بعد وہاں کے سرگرم جنگی گروہ پاکستان کے اندر بھی حملےشروع کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستانی حکومت اس علاقے میں فوجی کارروائی سے کترا رہی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین