کورونا سے بچنا ہے یا بھوک سے؟
21 اپریل 2020پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ساڑھے نو ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اب تک قریب دو سو افراد کووڈ انیس بیماری کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مغربی ممالک کی نسبت ہلاکتوں کی تعداد کافی کم ہے اور یہ ممکن ہے کہ پاکستان شاید کسی بڑی آفت سے بچ گیا ہو۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے اب تک قریب ایک لاکھ ٹیسٹ کیے ہیں۔ کیا اتنی کم تعداد میں ٹیسٹ کرنے کے باوجود ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی جیسے اقدامات کرنا درست حکمت عملی ہے؟ پاکستانی صحافی فہد حسین کی رائے میں پاکستان نے ایسا کر کے بہت بڑا رسک لیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فہد حسین کا کہنا تھا،'' ابھی لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ٹیسٹس بہت کم ہوئے ہیں۔ نا مکمل ڈیٹا کی بنیاد پر لاک ڈاؤن میں نرمی کر کے پاکستانی حکومت نے بہت بڑا رسک لیا ہے۔ رمضان کا آغاز ہونے کو ہے اور لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب ہے کہ وائرس پھیل سکتا ہے۔"
فہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وبا کے شروع میں وفاقی حکومت کی جانب سے اس کے خطرناک اثرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، حکمت عملی بنانے میں دیر کی گئی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،" سندھ نے دیکھا کہ دنیا نے اس بیماری کے خلاف کیا کیا اور انہوں نے وہی حکمت عملی اپناتے ہوئے لاک ڈاؤن کو اہم سمجھا۔ سندھ کی پالیسی کی ایک واضح سمت نظر آئی یہ دور اندیشی وفاقی حکومت کی جانب سے نہیں دکھائی گئی۔''
اقتصادی امور کے ماہر عابد قیوم سلہری کی رائے میں حکومت کی کارکردگی کو چار زاویوں سے جانچا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے لاک ڈاؤن، اس معاملے پر وفاق اور سندھ میں اتفاق نظر نہیں آیا۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ کس کی حکمت عملی بہتر تھی۔ دوسرا طبی اداروں میں سہولیات کی فراہمی۔ وفاق نے کوشش کی کہ صوبائی حکومتوں کے ہسپتالوں میں مناسب سہولیات فراہم کی جائیں۔ تیسرا زاویہ ملک کے غریب عوام کی مدد ہے۔ عابد قیوم سمجھتے ہیں کہ احساس پروگرام کے تحت ملک کے بارہ ملین خاندانوں کو بارہ ہزار روپے کی یک مشت ادائیگی چھوٹا فیصلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا،" اگر ستر فیصد مستحق لوگوں کو بھی یہ رقم موصول ہو گئی تو میں اسے حکومت کی کامیابی قرار دوں گا۔" عابد قیوم کے مطابق آخری زاویہ خوراک کی ممکنہ کمی ہے۔ پاکستانی حکومت مشکل وقت کے لیے پلاننگ کر رہی ہے کہ حالات خراب ہونے کی صورت میں عوام کو خوراک کی کمی نہ ہو۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا پر قابو کے مقصد سے ' نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر' تشکیل دیا گیا ہے۔ اس مرکز میں پاکستان کی وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں اور این ڈی ایم اے کے اراکین مل کر مشاورت کرتے ہیں اور اس وبا کے خلاف حکمت عملی کا تعین کرتے ہیں۔ فہد حسین کی رائے میں یہ سنٹر اچھا کام کر رہا ہے لیکن یہ انتظامی امور میں تو مدد گار ثابت ہو رہا، سیاسی امور میں نہیں۔ فہد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،" عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ انہیں کورونا سے خطرہ کم اور غربت سے خطرہ زیادہ ہے۔ ان کی پالیسی کے تحت وہ اقتصادی سرگرمی کی واپسی چاہتے ہیں۔ ایسے میں ' نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر' کی تجاویز اہم تو ہیں لیکن حتمی فیصلہ عمران خان ہی کریں گے۔
عابد قیوم سلہری کہتے ہیں حکومت کے لیے یہ ایک بہت مشکل فیصلہ ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہے اور اگر لاک ڈاؤن میں سختی کی گئی تو لوگ بھوک اور بے روزگاری کا شکار ہوں گے۔ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کورونا سے بچنا ہے یا بھوک سے۔