1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا سے بھارتی دفاعی سروسز بھی متاثر

جاوید اختر، نئی دہلی
11 مئی 2020

کووڈ انیس کے مضمرات دیگر شعبوں کے علاوہ بھارت کے ڈیفنس سروسز پر بھی واضح طور پر دکھائی دینے لگے ہیں اور اس کا پہلا ثبوت ملٹری میں نو ہزار سے زائد اسامیوں کو ختم کرنے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3c1TF
Indien Tag der Republik
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

حکومت نے اس کے علاوہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (اپریل۔جون) کے لیے دفاع کے مد میں مختص فنڈ میں سے 15 سے 20 فیصد تک کی رقم روک دی ہے۔

کورونا وائرس کی وبا سے پیدا شدہ بحران کے سبب دنیا بھر میں حکومتوں کو اپنے اخراجات محدود کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ بھارت بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ اس نے دیگر شعبوں کے علاوہ دفاع جیسے اہم شعبے میں بھی فنڈ میں تخفیف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑے اقدام کے طور پر ملٹری انجینئرنگ سروسز کی 9300 سے زائد اسامیوں کو ختم کردیا گیا ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ جمعرات کوا س کا با ضابطہ اعلان کیا۔

وزارت دفاع کی طر ف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد دفاعی اخراجات اور مقابلے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے درمیان نیا توازن قائم کرنا ہے۔ ان اسامیوں کو ملٹری انجینئرنگ سروسز کے انڈسٹریل ڈویزن سے ختم کیا گیا ہے جہاں اس وقت مجموعی طور پر 13157 افراد ملازم ہیں۔

اپریل کے اوائل میں بھارتی وزارت خزانہ نے ایک سرکلر جاری کرکے تمام وزارتوں کواپنے اپنے اخراجات میں کمی کرنے کے لیے کہا تھا۔

Indien Armee Bipin Rawat
بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت تصویر: Imago/ZUMA Press

خیال رہے کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے سال2020-21 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے قومی سلامتی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے دفاع کے مد میں 4.7 کھرب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر وزارت دفاع کے لیے مختص بجٹ میں کمی کرنے کا موجودہ رجحان برقرار رہا تو اگلے سہ ماہیوں کے دوران اس میں 40 فیصد تک کی کمی آسکتی ہے۔

دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کا خیال ہے کہ اس سال کے اواخر تک وزارت دفاع کو800 ارب روپے تک کی بہت بڑی رقم واپس کرنی پڑ سکتی ہے۔ چونکہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ تنخواہوں اور پنشن کو اس کٹوتی سے مستشنی رکھا جائے گا اس لیے فنڈ میں کمی کا سب سے زیادہ اثر ہتھیاروں کی خریداری اور فوج کی جدید کاری کے پروگرام پر پڑے گا۔

خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھارت کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت کیاجازت دیے جانے کے بعد بھارت امریکا سے 2.6 بلین ڈالر کے 22MQ-9 ریپیر ڈرون، ایک بلین ڈالرمالیت کے چھ P-81 میری ٹائم سرویلانس طیارے، ایک بلین ڈالر کے دو گلف اسٹریم 550 طیارے اور ایک بلین ڈالر کے سطح سے فضا میں مار کرنے والے جدید ترین میزائل سسٹم خریدنے پر غور کررہا ہے۔

وزارت دفاع نے گزشتہ برس پانچ ارب ڈالر کے مختلف دفاعی ساز و سامان کے سلسلے میں چودہ معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ لیکن کورونا وائرس کے نتیجے میں دفاعی فنڈ میں کمی کردیے جانے سے روسی، اسرائیلی اور فرانسیسی کمپنیوں کا نقصان ہونا طے ہے۔

اجے شکلا نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ بھارت کو ہتھیاروں کی خریداری موخر کردینی چاہیے، تاکہ دوسرے ملکوں کی معیشت کے بجائے اس پیسے کو بھارت اپنی معیشت کو بہتر بنانے پر لگاسکے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جن معاہدوں پر دستخط کردیے گئے ہیں ان کی خریداری تو کی جاسکتی ہے لیکن نئے کانٹریکٹ گھریلو مینوفیکچررز کو ہی دیے جانے چاہئیں۔

بھارت کی دفاعی جدیدکاری پروگرام کے سابق رکن اور دہلی میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز میں ریسرچ فیلو لکشمن کمار بہیرا نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے”اس (کورونا) وبا نے یہ واضح کردیا ہے کہ قومی سلامتی محض فوج نہیں ہے۔ اس وبا کی وجہ سے انسانی جانوں کے زیاں، محروم او ر کمزور طبقات کو درپیش پریشانیاں، ملازمتوں کا ختم ہوجانا اور دیگر سنگین اقتصادی نقصانات کے اثرات کسی بین ریاستی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔"

خیال رہے کہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کی سربراہی والے ڈپارٹمنٹ آف ملٹری افیئرز نے بھی گزشتہ دنوں آرمی، بحریہ اور فضائیہ سے کہا ہے کہ وہ اپنے تمام خریداریوں کو فی الحال اس وقت تک روک دیں جب تک کہ کووڈ انیس سے پیداشدہ حالات بہتر نہیں ہوجاتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں