کورونا وبا کے سائے میں امسالہ پولیو مہم کا آغاز
24 جنوری 2022نئے سال کی انسداد پولیو کی اس پہلی پانچ روزہ مہم میں قریب ڈیڑھ لاکھ پولیو ورکرز حصہلے رہے ہیں۔ گزشتہ برس پاکستان میں صرف ایک پولیو کیس جنوب مشرقی صوبے بلوچستان میں رجسٹر ہوا تھا۔ پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں پولیو کی وبا اب بھی پائی جاتی ہے۔ یہ بیماری بچوں میں جزوی طور پر فالج کا سبب بن سکتی ہے۔ ان جنوب ایشیائی ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں پولیو پر کافی حد تک قابو پایا جا چُکا ہے۔
پاکستان میں پولیو مہم کیوں ناکام ہوئی؟
اس سال کا ہدف
پاکستان کے پولیو قومی پروگرام کے کوآرڈینیٹر یا رابطہ کار شہزاد بیگ کے مطابق پیر چوبیس جنوری دو ہزار بائیس سے شروع ہونے والی اس مہم کے ذریعے پانچ سال سے کم عمر کے قریب 22.4 ملین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
پاکستان میں گزشتہ پولیو مہم اُس وقت شروع کی گئی تھی جب کورونا وائرس پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا تھا۔ اس کے برعکس اس بار کی مہم ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب پورا ملک کورونا کے نئے ویریئنٹ کی شدید لپیٹ میں ہے۔
پاکستان میں گزشتہ برس 144 پولیو کیسز کا اضافہ
پولیو مہم کیوں اہم ہے؟
پاکستان میں گزشتہ برس بھی ایک پانچ روزہ پولیو مہم کے ذریعے پانچ سال تک کی عمر کے پانچ کروڑ بچوں کو یہ قطرے پلائے گئے تھے اور ساتھ ہی چھ ماہ تا پانچ سال کی عمر کے بچوں کو وٹامن اے کی خوراک بھی دی گئی تھی۔ ان خوراکوں کا مقصد بچوں میں قوت مدافعت کو مضبوط بنانا ہے۔ اگر بچوں کی قوت مدافعت کمزور ہو تو یہ دیگر بیماریوں کے خلاف کامیابی سے لڑ نہیں سکتے۔ کورونا وائرس نے لوگوں کی قوت مدافعت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے تھے۔ کورونا وائرس سب سے زیادہ ان افراد پر حملہ کرتا ہے جن کا امیون سسٹم یا مدافعت کا نظام کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے رواں برس بھی ٹھیک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ نے پاکستان کے کم و بیش ہر علاقے کے شہریوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے تو اس موقع پر ماہرین کا خیال ہے کہ پولیو اور وٹامن اے کے قطرے پلایا جانا بہت ضروری ہیں۔
ہلاک یا زخمی ہونے والے پاکستانی پولیو ورکرز، زر تلافی کا مطالبہ
پولیو مہم کب سے جاری ہے؟
پاکستان میں پولیو مہم کا باقاعدہ اہتمام گزشتہ 25 برسوں سے ہو رہا ہے۔ اس مہم کے تحت ہیلتھ ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے اور ساتھ ہی وٹامن اے کے قطرے بھی پلاتے ہیں۔ لاکھوں ہیلتھ ورکرز اس اہم مہم کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ تاہم گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا کام زیادہ تر خواتین ورکرز انجام دیتی ہیں کیونکہ اس مہم کی اہمیت پر بات چیت کرتے ہوئے انہیں ماؤں کو قائل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
سکیورٹی میں اضافہ
اس سال پولیو مہم کے دوران ورکرز کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں عسکریت پسندوں کی طرف سے پولیو ورکرز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ انتہا پسند عناصر اور دہشت گردوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پولیو مہم دراصل مغربی دنیا کی ایک سازش ہے۔
پاکستان میں مزید دو پولیو ورکرز مار دیے گئے
پولیو مہم میں شامل ورکرز پر دہشت گردوں کے حملوں میں اُس وقت سے اضافہ ہوا، جب 2011ء میں پاکستان میں امریکی کمانڈوز نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں کارروائی شروع کی اور آخر کار وہ امریکی حملے میں ہلاک ہو گیا۔ اُن حملوں کے سلسلے میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ مبینہ طور پر امریکی خفیہ سروس سی آئی اے ہیپیٹائٹیس کی جعلی ویکسینیشن مہم کو ایک چال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
افغانستان میں پولیو ٹیم پر حملہ، کم از کم چار ارکان ہلاک
اس سال کی پولیو مہم اس لیے زیادہ مشکل حالات میں شروع ہوئی ہے کہ پاکستان ایک بار پھر کورونا وبا کی شدید زد میں ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے درمیان ملک بھر میں 7 ہزار سے زائد کووڈ کے نئے کیسز ریکارڈ ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ جون سے اب تک کی سب سے زیادہ یومیہ تعداد ہے۔
پولیو ورکرز کو ماسک اور سینیٹائزرز کے استعمال کے ساتھ ساتھ سماجی فاصلے کا خاص خیال رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ک م/ ع ا/ اے پی