جرمنی: کمزور ممالک کی امداد میں اضافہ، پارلیمان میں بحث جاری
19 جون 2020کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو غربت، بیماری اور بھکمری کا سامنا ہے ایسے میں جرمنی کی سیاسی جماعتیں کمزور ملکوں کو دی جانے والی مالی امداد میں اضافہ کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
جرمنی کے وزیر برائے ترقیات گیرڈ میولر نے ایک جرمن روزنامہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہم ترقی پذیر ملکوں میں تباہی سے دوچار اقتصادی صورت حال اور بھکمری سے نمٹنے میں مدد کر رہے ہیں۔ جرمنی دنیا کے تئیں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔"
برلن حکومت نے بدھ کے روز کمزور ملکوں کے لیے اگلے دو سال تک سالانہ 3.35 بلین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمن پارلیمان کے اراکین اس پروگرام کے حق میں ہیں تاہم بیشتر سیاسی جماعتیں اس رقم میں اضافہ کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ وہ آج جمعہ انیس جون کو پارلیمنٹ میں اس موضوع پر حکومت کی طرف سے پیش کردہ پروگرام پر بحث کے دوران فنڈ میں اضافہ کرانے کی کوشش کریں گی۔
اس حوالے سے اب تک پانچ تجاویز پیش کی جاچکی ہیں۔ ان میں سے ایک تجویز کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) اور اس کی حلیف جماعتیں، حکمراں کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) نے اپنی جونیئر حلیف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی(ایس پی ڈی) جبکہ چار دیگر تجاویز اپوزیشن جماعتیں گرین، بائیں بازو، ایف ڈی پی اور اے ایف ڈی نے پیش کی ہیں۔
سی ڈی یو کے رکن پارلیمان جارج کیپلز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ”گوکہ ہم نے یورپ میں مقامی معیشتوں کو تقویت فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ مالی امداد فراہم کی ہے تاہم ابھی ترقی پذیر ملکوں کے سلسلے میں ایسا نہیں ہوسکا ہے۔" انہوں نے کہا ”وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں جب کہ بہت سے کسان کاشت کاری نہیں کر پارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کورونا وائر س کی وبا کے نتیجے میں افریقہ میں 30 ملین افراد غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جرمن وزارت ترقیات نے اپریل میں اپنے پہلے خصوصی امدادی پروگرام کے لیے مختلف ذرائع سے فنڈ مختص کیے تھے۔
سی ڈی یو/ سی ایس یو اور ایس پی ڈی نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ حکومت ترقی پزیر ملکوں میں بھکمری کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے فوراً امداد فراہم کرے۔ انہوں نے مالی امداد اور قومی نظام صحت کو بہتر بنانے کے لیے طویل مدتی مالی امداد دینے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
اسی طرح کی ایک تجویز بائیں بازو کی جماعت کی طرف سے بھی آئی ہے۔ بائیں بازو کی جماعت ’دی لنکے‘ سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان ہیلن ایوریم زومر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”اس وبا نے ہمیں یہ بتادیا ہے کہ جرمنی کو اپنی جی ڈی پی کا کم از کم 0.1 فیصد عالمی صحت پر خرچ کرنا چاہیے۔"
جرمنی کی لیفٹ پارٹی کی تجویز ہے کہ کورونا وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اقتصادی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چاربلین یورو مختص کیے جائیں اور اس کا اصرار ہے کہ یہ رقم موجودہ بجٹ سے نہیں لیا جانا چاہیے۔ زومر نے کہا ”اگر کورونا وائرس کے بجائے ملیریا سے زیادہ اموات ہونے لگیں گی تو پھر کسی کی مدد نہیں کی جاسکے گی۔ یہ وبا ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے ہمیں اضافی ذرائع استعمال کرنے ہوں گے۔"
دوسری جانب نیو لبرل جماعت ایف ڈی پی نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ترقی پزیر ملکوں کو ہر سال 3 بلین یورو کی اضافی مالی مدد دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ گرین پارٹی کی تجویز ہے کہ ہر سال دو بلین یورو کی اضافی مالی مدد دی جائے۔ پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ”کورونا کا بحران ایک عالمی چیلنج ہے جس نے انسانی حقوق، پائیدار اور مناسب ترقی کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے اور اس کے لیے عالمی پیمانے پر حل کی ضرورت ہے۔کوئی بھی ملک کورونا وائرس سے پیدا صحت، سماجی اور اقتصادی بحران کا اپنے بل بوتے پر مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بین الاقوامی تعاون اور مذاکرات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔"
ایف ڈی پی نے جرمنی اور یوروپی یونین کو انسانی امداد میں اضافہ کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ جرمن وزیر برائے ترقیات نے بھی یورپی یونین سے ایسا کرنے کی اپیل کی ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ‘ (اے ایف ڈی) واحد پارٹی ہے جو اس تجویز کے خلاف ہے۔ اس نے 'افریقہ کے لیے مارشل پلان‘ کو ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ جرمنی کو چاہیے کہ افریقہ کے لیے اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کرے تاکہ یہ براعظم اس وبا جیسے دیگر بحرانوں سے بھی اپنے طورپرزیادہ بہتر طریقے سے نمٹ سکے۔
ڈینیل پیلز / ج ا / ع آ