کورونا کے خطرات کے سائے میں پولیو مہم کا دوبارہ آغاز
20 جولائی 2020آج بیس جولائی سے اس مہم کو دوبارہ شروع کرنے کا مقصد اُن بچوں کو اس بیماری سے بچانے کی کوشش کرنا ہے جو پولیو کے قطرے نہ ملنے کی صورت میں زندگی بھر کے لیے معذور ہو سکتے ہیں۔
پیر 20 جولائی سے دوبارہ عمل میں لائی جانے والی پولیو مہم میں فیصلہ آباد، جنوبی وزیرستان، اٹک، کراچی اور کوئٹہ کے چند پولیو ہاٹ اسپاٹس میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلائے جائیں گے۔ گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی اس مہم کے ذریعے پانچ سال سے کم عمر کے آٹھ لاکھ بچوں کو اس بیماری سے بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ پیر 20 جولائی سے دوبارہ شروع ہونے والی یہ مہم تین روز تک جاری رہے گی۔
محکمہ صحت کے اہلکار کے مطابق اس مہم کے لیے 32 ہزار ہیلتھ ورکرز کو بچوں کو قطرے پلانے کے دوران مکمل حفاظتی اقدامات کی تربیت دی گئی ہے۔ رواں برس مارچ کے بعد سے انسداد پولیو مہم میں تعطل کے سبب 40 ملین بچے اس ویکسین سے محروم رہے ہیں جس کے سبب ان میں اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت میں کمی کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور مزید بچوں کے پولیو جیسی بیماری میں مبتلا ہونے کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال اب تک ملک بھر میں پولیو کے 59 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 21 خیبرپختونخوا، 20 سندھ، 15 بلوچستان اور چار کیسز پنجاب میں رجسٹر ہوئے۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز 1994 ء میں ہوا تھا اور اس جنوبی ایشیائی ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کی منزل بہت قریب آ چُکی تھی تاہم انسداد پولیو مہم کے خلاف شروع ہونی والی مہمات اور پولیو ورکرز پر آئے دن ہونے والے حملوں نے اس مقصد کو شدید نقصان پہنچایا۔
2014 ء میں پولیو کیسز عروج پر پہنچ چُکے تھے اور ان کی تعداد 306 ہو گئی تھی۔ یہ وہ نازک وقت تھا جب طالبان کے خلاف ایک جارحانہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2015ء میں پولیو کیسز میں واضح کمی کے ساتھ ان کی تعداد گر کر 54 ہو گئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کے بعد کے تین سالوں کے دوران ملک بھر میں پولیو کیسز کی سالانہ تعداد 20 یا اس سے بھی کم رہ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے ایما اور اس کی مالی اعانت سے چلائی جانے والی پولیو مہم کی مخالفت پاکستان کے مذہبی قدامت پسندوں اور عسکریت پسند حلقوں نے کی۔ جن کا یہ ماننا ہے کہ پولیو مہم مغرب کی ایک سازش ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو اولاد سے محروم کرنا ہے کیونکہ ان کے خیال میں پولیو کے قطرے بانجھ پن کا سبب بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں پولیو مہم کی طرح کی دیگر مہموں کو کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کے تحت روک دیا گیا تھا۔ کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ اور سب سے بڑھ کر 'سوشل ڈسٹنسنگ‘ کی وجہ سسے پولیو ورکرز کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو جاری رکھنا ناممکن تھا۔
ک م / ا ب ا (ڈی پی اے)