سخت ترین کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چینی معیشت سکڑ رہی ہے
15 جولائی 2022بیجنگ میں 15 جولائی جمعے کے روز جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چینی معیشت اپریل سے جون کے دوران کی سہ ماہی میں مزید ِ2.6 فیصد تک سکڑ گئی۔
اپریل اور جون کی اس مدت میں شنگھائی اور دیگر بڑے شہروں میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کی کوشش کے تحت سخت قسم کا لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ سن 2019 میں اس وبا کے آغاز کے بعد سے چین نے پہلی بار معاشی ترقی کی رفتار میں اس قدر گراوٹ درج کی ہے۔
حکام نے 'مستحکم بحالی' کی تعریف کی
بیجنگ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد سے جب کاروبار دوبارہ کھلے، تو معیشت کی ''مستحکم بحالی'' کا عمل جاری ہے۔ اعداد و شمار سے متعلق چینی بیورو نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''وبا پھیلنے کو بہت ہی مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا گیا۔'' اور اس کے بعد، ''قومی معیشت نے مستحکم بحالی بھی درج کی ہے۔''
چین کی حکومت معاشی بحالی کو فروغ دینے کے لیے ٹیکسوں کی واپسی اور مفت کرایہ جیسی دیگر امداد کا وعدہ کر رہی ہے۔ تاہم پیش گوئی کرنے والے بیشتر ماہرین کو اس بات کی توقع ہے کہ چین نے رواں برس اپنی معیشت کی نمو کا پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کا جو ہدف مقرر کیا ہے، اس کو حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا۔
لیکن چین کے شماریات بیورو کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے قیمتوں میں اضافہ کم کرنے سے متعلق جو احتیاطی تدابیر کی ہیں اس کی وجہ سے روزمرہ کی اشیا سے متعلق افراط زر کی شرحیں دوسرے ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔ تاہم ترجمان نے یہ بات تسلیم کی کہ چین میں کھپت کی بحالی کو اب بھی ''مشکلات'' کا سامنا ہے۔
معاشی سست روی کی وجوہات کیا ہیں؟
چین کے شہر شنگھائی کی بندرگاہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے، جو کورونا کی وبا کی وجہ سے مارچ کے آخر میں ہی بند کر دی گئی تھیں۔ اور پھر شہر کی فیکٹریوں اور دفاتر کو مئی میں دوبارہ کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس کی وجہ سے کاروبار تقریبا ًٹھپ ہو کر رہ گیا۔
چین نے رواں برس کووڈ انیس کے پھیلنے کو روکنے کے لیے زیرو پالیسی اپنائی اور اس کے تحت جو بھی پوزیٹیو پا یا گیا اسے مکمل طور پر الگ تھلگ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ تاہم اب بیجنگ نے اس ''متحرک کلیئرنگ'' پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے جس کے تحت عمارتوں اوریا پورے پورے محلوں کو قرنطینہ کر دیا جاتا ہے۔
ماہرین اقتصادیات اور کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ چونکہ بندرگاہیں بند پڑی تھیں اس لیے چین کے تجارتی شراکت دار آئندہ مہینوں میں اس رکاوٹ کے اثرات محسوس کریں گے۔ معاشی سست روی سے درآمد شدہ تیل، خوراک اور بہت سی اشیا خوردنی کی مانگ میں کمی کے ساتھ ہی چین کی برآمدات میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔
گرچہ سن 2020 میں کورونا وبا کے بعد چین نے اس پر بہت تیزی سے قابو پا لیا تھا، تاہم اس کی وجہ سے اس کی اقتصادی سرگرمیاں کمزور پڑ
گئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بیجنگ نے رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں قرضوں پر کنٹرول کو بڑھا دیا اور اس طرح تعمیرات اور مکانات کی فروخت میں کمی کی وجہ سے معاشی ترقی میں کمی آئی۔
چین کی کئی تعمیراتی کمپنیاں اب بھی اس مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی ہیں اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کی جد و جہد کرتی رہی ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)