کيا يونان سے مہاجرين کو زبردستی ملک بدر کيا جا رہا ہے؟
9 جون 2017يونانی دارالحکومت ايتھنز ميں يو اين ايچ سی آر کے نمائندے فيليپے ليکليرک کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ يہ پہلا موقع نہيں کہ يونان پر غير رسمی اور جبری ملک بدريوں کے الزامات سامنے آ رہے ہيں۔ ان کے بقول يہ بات انتہائی اہم ہے کہ يونانی حکام اس معاملے کی چھان بين کريں۔
اس سلسلے ميں سب سے پہلے اس ہفتے کے آغاز پر انسانی بنيادوں پر امداد سے متعلق ايتھنز ميں قائم ايک ادارے ’ہيلينک ليگ فار ہيومن رائٹس‘ (HLHR) نے يہ الزامات لگائے تھے۔ اس ادارے نے ايک مثال دی جس ميں يونان سے ملک بدر کيے جانے والے نو ميں سے کم از کم ايک شخص اس وقت ترکی میں زير حراست ہے۔ ايک اور واقعے ميں پورے کے پورے ايک خاندان کو ملک بدر کر ديا گيا۔ ادارے نے خبردار کيا ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کو سياسی پناہ کی عدالتی کارروائی سے محروم رکھنا بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی ہے۔
يو اين ايچ سی آر کے نمائندے فيليپے ليکليرک کا اس بارے ميں مزيد کہنا تھا، ’’اگر اس کی تصديق ہو جاتی ہے، تو يہ واقعی کافی پريشان کن بات ہے۔‘‘ ان کے مطابق سياسی پناہ کی کوشش اور مستحق ہونے پر اس کا حصول ايک بنيادی حق ہے۔ انہوں نے اپنا بيان يو اين ايچ سی آر کی ويب سائٹ پر جاری کيا۔
ايتھنز حکومت کے ترجمان نے ان الزامات کو رد کر ديا ہے۔ انہوں نے قومی ٹيلی وژن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ يونان جبری ملک بدرياں نہيں کر رہا۔
يہ امر اہم ہے کہ سن 2015 اور 2016ء کے درميان جب مہاجرين کا بحران اپنے عروج پر تھا تو يونان، يورپ ميں داخلے کے ليے مرکزی راستہ تھا۔ اس دورن ايک ملين سے کہيں زيادہ مہاجرين ترکی سے بحيرہ ايجيئن کے راستے يونان پہنچے ليکن ان ميں سے بہت کم ہی کی حتمی منزل يونان تھی۔ اکثريتی مہاجرين مغربی يورپی رياستوں کی طرف بڑھنے کے خواہشمند تھے۔ تاہم بعد ازاں متعدد مشرقی يورپی رياستوں اور بلقان خطے کے ملکوں کی طرف سے سرحد بندشيں متعارف کرائے جانے کے بعد تقريباً ساٹھ ہزار مہاجرين يونان ميں ہی پھنس کر رہ گئے۔