کيميائی کھاد اور بڑی ٹيکنالوجی سے گريز: ورلڈ واچ انسٹيٹيوٹ
31 مارچ 2011گزشتہ عشروں کے دوران دُنیا بھر میں زرعی پيداوار ميں خاصا اضافہ ہوا ہے ليکن اس کے باوجود غربت بھی بڑھی ہے۔ امريکہ اور يورپ میں خصوصاً بڑے زمينداروں کی سرکاری اعانت کی جاتی ہے، جس کے باعث چھوٹے کسان تباہ ہو رہے ہيں۔ واشنگٹن کے ورلڈ واچ انسٹيٹيوٹ کے مطابق ايک باکفايت زراعت کے ذريعے مستقبل ميں 9 ارب تک کی عالمی آبادی کو غذا فراہم کی جا سکتی ہے، چھوٹے کسانوں کی حالت کو بہتر بنايا جا سکتا ہے، غربت ميں کمی کی جا سکتی ہے اور غذا کو بہتر بنايا جا سکتا ہے۔
کيميائی کھادوں کے ساتھ ساتھ ٹيکنالوجی کا بھی کثرت سے استعمال کرنے والی صنعتی زراعت کے فوائد پر شکوک بڑھتے جا رہے ہيں۔ بہت زيادہ پيداوار دينے والی زراعت کی بنياد ہی کيميائی کھاد اور کيميائی کيڑے مار دواؤں پر رکھی گئی ہے۔ ليکن اس کے نتيجے ميں ماحول آلودہ ہو رہا ہے، زمين بنجر ہوتی جا رہی ہے، موسم اور آب و ہوا کو نقصان پہنچ رہا ہے اور پانی کی قلت بھی بڑھ رہی ہے۔
ڈانيئیلے نيرين برگ کا کہنا ہے کہ ٹيکنالوجی کے ذريعے زرعی پيداوار ميں مزيد اضافہ ممکن نہيں ہے۔ زراعت ميں کفايت شعاری اور قدرتی ذرائع کے استعمال کی ماہر ڈانيئیلے، ورلڈ واچ انسٹيٹيوٹ سے منسلک ہيں۔ انہوں نے زراعت ميں نت نئے راستوں کی تلاش ميں افريقہ کے 25 ممالک ميں کام کيا ہے اور یوں بھوک اور غربت کے خاتمے کی راہيں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ آج ہم جتنا اناج پيدا کر رہے ہيں، اُسی کو بہتر طور پر ذخيرہ کرنا اور اس سے بہتر طور پر فائدہ اٹھانا بڑے بڑے منصوبوں ميں سرمايہ لگانے سے بہتر ہے:
’’ہميں ان غذائی اشياء کو بہتر طور پر استعمال کرنا ہوگا، جو ہم پيدا کر رہے ہيں۔ آج کل دنيا بھر ميں پيدا ہونے والی غذائی اشياء ميں سے 25 سے 75 فيصد تک خراب ہو جاتی ہيں۔ ہم نے يہ معلوم کيا ہے کہ ان غذائی اشياء کو بالکل سادے اور سستے طريقوں سے ضائع ہونے سے بچايا جا سکتا ہے۔ مثلاً پھليوں کو مقامی طور پر تيار ہونے والی پلاسٹک کی تھيليوں ميں اچھی طرح سے ذخيرہ کيا جا سکتا ہے۔ اس طرح کسان اپنی سالانہ آمدنی ميں بھی اضافہ کر سکتے ہيں۔‘‘
غذا کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لئے افريقی حکومتوں کو مشورے دينے والے ادارے افريقی سينٹر فار ٹيکنالوجی اسٹڈيز کی ڈائریکٹر جوڈی واکھونگو کا کہنا ہے کہ جينیاتی ٹيکنالوجی اور زيادہ پيداوار والی اقسام پر زور دينے کی بجائے مقامی ضروريات کے مطابق ٹيکنالوجی پر توجہ دی جانا چاہيے۔ جرمنی کی ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کی باربرا اُنميوسش کا کہنا ہے کہ نہ صرف کافی غذائی اشياء پيدا کرنے پر توجہ دينے کی ضرورت ہے بلکہ بڑی ٹيکنالوجی،کيميائی کھاد اور جينیاتی ٹيکنالوجی کی بجائے ايسے زراعتی طريقے اختيار کئے جانے چاہيیں، جن سے ماحول اور زمين کو نقصان نہ پہنچے۔
گذشتہ کئی عشروں کے دوران چھوٹے کسانوں کو نظر انداز کيا گيا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی حکومتيں نہ ہونے اور کرپشن کی وجہ سے بھی امدادی رقوم کسانوں تک نہيں پہنچ پائی ہيں۔
رپورٹ: یُوتا شوینگزبیئر / شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی