کچھ جرمن شہروں میں فلسطین کے حق میں مظاہرے، کچھ میں پابندی
16 اکتوبر 2023جرمنی میں پولیس اور عدالتوں نے ہفتے کے اواخر میں مختلف شہروں میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی جبکہ کچھ بعض شہروں میں اس کی اجازت دی گئی۔
جرمنی کے لیے واحد جگہ اب اسرائیل کے ساتھ ہے، چانسلر شولس
برلن پولیس نے اتوار کی شام کو لوگوں سے آن لائن اپیل کی کہ وہ شہر کے مرکز 'پوٹسڈامر پلاٹز‘ میں غزہ کے شہریوں کے حق میں ایک طے شدہ ''بیداری'' مہم کے لیے جمع نہ ہوں۔ پولیس نے کہا کہ اس کی اجازت نہیں کیونکہ اس سلسلے میں ایک ایسے ہی اجتماع پر پہلے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سامیت مخالف واقعات کے بعد جرمنی میں حماس کے پرچم پر پابندی پر اتفاق
برلن پولیس نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''زیادہ سے زیادہ شرکاء فلسطین کی حامی علامتوں اور پرچموں کے ساتھ اجتماع میں آ رہے تھے، جس کی اصل میں ایک آگاہی مہم کے طور پر منصوبہ بندی کی گئی تھی۔''
جرمنی میں حزب اللہ سے تعلق رکھنے والی تین تنظیموں پر پابندی عائد
بیان میں مزید کہا گیا، ''فلسطین کی حامی علامتوں کے ساتھ لوگوں کی کافی تعداد میں آنے کے نتیجے میں، اس احتجاج کو باقاعدہ طور پر شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔''
جرمنی نےاسلام پسند تنظیم انصار انٹرنیشنل پر پابندی لگا دی
پولیس نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ابتدا میں لوگوں نے وہاں سے جانے سے انکار کر دیا، ''تاہم بعد ازاں ہمارے افسران کے کہنے پر وہ پوٹسڈامر پلاٹز سے چلے گئے۔ تب سے حالات پرسکون ہیں۔‘‘
یروشلم میں بم حملہ، یورپی یونین کی مذمت
تاہم تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کو بعض مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے طاقت کا بھی استعمال کرنا پڑا۔ پولیس کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً ایک ہزار لوگ مظاہرے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
گزشتہ ہفتے کے روز اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے فوراً بعد برلن کے ضلع نوئے کولن میں کچھ فلسطینیوں کی جانب سے جشن منائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس کے بعد ہی برلن میں حکام نے شدت پسندانہ جذبات کے اظہار کے خوف سے مزید اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی۔
فرینکفرٹ میں بھی مظاہروں پر پابندی
فرینکفرٹ میں بھی مقامی عدالتوں نے ہفتے کے روز فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد پولیس نے وہاں جمع ہونے والے افراد کو شہر کے وسطی اوپرن پلاٹز سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
تاہم کولون کی ایک مقامی عدالت نے شہر میں فلسطینی کمیونٹی گروپ کی جانب سے منظم کیے گئے اسی طرح کے اجتماع پر آخری لمحات میں پابندی عائد کیے جانے کی اپیل کو مسترد کر دیا اور اس کی اجازت دی۔
پولیس نے اس کو روکنے کے لیے ابتدائی طور پر یہ دلیل دی تھی کہ یہ مظاہرہ شہر کے مرکز میں واقع 'ہوئے مارکیٹ‘ پر اسرائیل کے حق میں ہونے والے مظاہرے کے بہت قریب ہو گا اور اس طرح اس سے سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات در پیش ہوں گے، تاہم عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
کولون کے ایک مقامی اخبار کے مطابق آخر میں، تقریباً 250 لوگوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے اس مظاہرے میں شرکت کی، جب کہ 350 کے قریب اسرائیل کے حق میں جمع ہوئے۔
کولون کے قریبی شہر ڈسلڈورف میں بھی ہفتے کی سہ پہر ''آزاد فلسطین'' کے عنوان سے ایک مظاہرے کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ مقامی پولیس کے مطابق اس میں بھی تقریباً 700 لوگ شریک ہوئے، لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
حماس کی حمایت بے دخلی کا باعث بن سکتی ہے، وزیر داخلہ کی تنبیہ
اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد سے جرمنی میں بہت سے یہودیوں نے اپنی سلامتی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے اور اس دوران یہودی عبادت گاہوں اور دیگر مقامات کی حفاظت کے لیے پولیس کی نفری میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے ملک کی یہودی برادری کے لیے اضافی تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے اخبار بِلڈ ام زونٹاگ کو بتایا کہ ''یہ تشویش کی بات ہے کہ بہت سے خاندان کافی پریشان ہیں۔ اب یہ پیغام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں! ہم آپ کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت حماس کے حامیوں کو ملک بدر کرنے کے لیے تمام قانونی ذرائع کا استعمال کرے گی۔
قدامت پسند اپوزیشن نے حکومتی موقف کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ باویریا میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے الیکسانڈر ڈوبرنٹ نے ''یہودیوں اور اسرائیل سے نفرت کے خلاف سخت کریک ڈاؤن'' کا مطالبہ کیا اور کہا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے، اسرائیل کے وجود کے حق کا اعتراف کرنا ضروری ہونا چاہیے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)