کچھ شیریں کچھ تُرش: میرکل، ٹرمپ مذاکرات
18 مارچ 2017وائٹ ہاؤس کی تاریخ اور اس کی روایات پر نظر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ یہاں کی سیاسی بساط پر مہرے وقت وقت سے ضرور تبدیل ہوتے ہیں تاہم ان مہروں کی چال کے پیچھے حکمت عملی ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے، اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل سب سے بڑے ملک امریکا کے ساتھ تجدید وفا کرنے جرمنی کے چوٹی کے سیاسی رہنما اور سربراہان مملکت وقفے وقفے سے ضرور وائٹ ہاؤس کا دورہ کرتے ہیں۔ اب تک جرمن رہنماؤں کے یہ دورے نہایت خوش گوار ہی رہے تاہم جنوری 2017 ء میں ریپبلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کے 45 ویں امریکی صدر کے بہ طور ذمہ داریاں سنبھالنےکے بعد سے پورا منظر نامہ ہی بدل چکا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی منصب سنبھالتے ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی پر تو نکتہ چیں ہوئے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اخراجات میں جرمن تعاون کو بھی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا ہے۔ یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس میں جرمن چانسلر کا پہلی بار استقبال کرتے ہوئے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی سفارتی تکلف اور امریکا جرمنی روایتی دوستانہ تعلقات کا لحاظ کیے بغیر میرکل سے دفاعی بجٹ میں اضافے اور دفاعی اخراجات کے لیے جی ڈی پی ہدف کا دو فیصد پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔ میرکل نے اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2024 ء تک جرمنی اس ہدف کو پورا کر سکے گا۔
کرسچین ڈیموکریٹ سیاستدان انگیلا میرکل بہ طور چانسلر تیسری بار امریکا کے کسی صدر سے ملاقات کر رہی ہیں۔ ٹرمپ سے قبل سابق امریکی صدر اور ڈیموکریٹ سیاستدان باراک اوباما کے ساتھ تاہم میرکل کی ملاقاتیں بالکل علیحدہ ماحول میں ہوا کرتی تھیں۔ میرکل اور اوباما دونوں نہابت ہشاش بشاش اور بہت ہی دوستانہ نظر آیا کرتے تھے، اس بار ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں میرکل غیر معمولی حد تک سنجیدہ اور محتاط نظر آ رہی ہیں۔ ایسے میں پہلی ملاقات میں ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کے بارے میں شکوے شکایات شروع کر دیں۔
ٹرمپ نے ایک بار پھر فون ٹیپ کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے چانسلر میرکل سے اپنے ان دعووں کی تائید چاہی اور کہا کہ،’کم از کم ان کے اور میرکل کے مابین کوئی قدر تو مشترک ہے‘‘۔ ٹرمپ کا اشارہ اوباما کے دور میں ان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے میرکل کے فون کی نگرانی کے بارے میں منظر عام پر آنے والی اطلاعات کی طرف تھا تاہم چانسلر میرکل نے ٹرمپ کے اس بیان کو سنی ان سنی کر دیا اور کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
میرکل امریکا کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کا عزم بھی رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دورے پر زیمنس، شیفر اور بی ایم ڈبلیو جیسی بڑی جرمن کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیدار بھی میرکل کے ساتھ امریکا پہنچے ہیں۔ حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران موٹر سازی کی بڑی جرمن کمپنیوں پر بھاری اضافی ٹیکس لگانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ان اور دیگر معاملات کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور ان کی متنازعہ پالیسیوں کے بارے میں جرمن چانسلر نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت سے پہلے ہی جرمن اخباروں کو اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا تھا، ’’ایک دوسرے کے بارے میں بات کرنے سے بہتر ہے کہ ایک دوسرے سے بات کی جائے‘‘۔
یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے سربراہان یعنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل دونوں کی شخصیات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور چند اہم عالمی سیاسی معاملات میں دونوں کا نقطہء نظر اور اپروچ بھی ایک دوسرے کی ضد نظر آتے ہیں۔ ایک طرف جرمن چانسلر کو دنیا بھر میں ان کی مہاجرین دوست پالیسیوں کے سبب بہت زیادہ پسند کیا جانے لگا تو دوسری طرف نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن کے خلاف جارحانہ پالیسیوں کے سبب انہیں امریکا کے اندر اور بیرون ملک انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ تاہم برسر اقتدار آتے ہی مہاجرین سے متعلق میرکل کی پالیسیوں کو نہ صرف کڑی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں بلکہ انہوں نے جرمنی کی طرف سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے کے فیصلے کو ٫تباہ کن غلطی٬ قرار دیا تھا۔ اس پر میرکل کا جواب یہ تھا کہ ان کا ملک اپنی ذمہ داریوں کو بہتر سمجھتا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ سے اس بارے میں کچھ سیکھنے کی انہیں ضرورت نہیں ہے۔
میرکل نے جرمنی ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کے اتحاد کی اہم ترین نمائندہ کے طور پر کہا تھا، ’’یورپی ممالک اور باشندوں کی تقدیر خود ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے‘‘۔ میرکل ٹرمپ سیاسی اختلافات اپنی جگہ تاہم تجارتی تعلقات ہی آخر کار سبب بنتے ہیں مصلحتوں کے آگے سمجھوتا کر لینے کا۔