کھانا ’فِنش‘ کر کے ’ہینڈز واش‘ کر لو!
4 اکتوبر 2021سن 1947ء میں جب انگریزوں سے آخر کار جان چُھوٹی تو ہم نے ان کے کلچر کی کچھ چیزوں کو بخوشی اپنا لیا اور زبان کو تو صحیح معنوں میں آج تک دل سے لگا کر رکھا ہے۔ آنے والی ہر نسل اپنے بڑوں سے بڑھ کر اسے ایسے اپناتی ہے، جیسے خواتین مارکیٹ میں آنے والی ہر نئی لان کولیکشن کو، یعنی فوری اور جائز ناجائز ہر قیمت پر۔
قیام پاکستان کے وقت اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا، جس کی بنیادی وجہ اردو میں قانونی اور آئینی اصطلاحات کی عدم موجودگی تھی۔ سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آج کسی کا اردو اصطلاح استعمال کرنا تو دور کی بات اس کا معنی سمجھنا قدرے ناممکن اور کافی حد تک معیوب ہو چکا ہے۔
عزت کی خاطر صرف سرکاری زبان کا درجہ دینے پر اکتفا نہیں بلکہ اسے تعلیم یافتہ اور ماڈرن ہونے کا معیار بھی بنا ڈالا۔ چار لوگوں میں اُٹھنے بیٹھنے پر فِطری روانی سے انگریزی کا استعمال ہی تو جِدت کی ضمانت ہے۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اردو تو ٹھیک سے نہیں آتی اور خدانخواسته کہیں علاقائی یا صوبائی زبان میں بات کر لی تو شاید کوئی ڈِگری ہی ضبط ہو جائے۔
ہمارے بچپن تک یہ قابلِ فخر سمجھا جاتا تھا کہ آپ کا بچہ ہر مضمون میں بہت قابل ہے، بس اردو اور اسلامیات میں قدرے کمزور ہے۔ چونکہ انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے اس لیے انگریزی زبان میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین بہت اچھے سے پڑھ لیتا ہے۔
نئی نسل میں ایک واضح بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے، جب والدین کے لیے اب باعثِ فخر یہ بات ہے کہ ان کے بچے کو تو اردو سِرے سے آتی ہی نہیں۔ گھر میں سبھی ماڈرن ہیں اور اردو تو کبھی بولی ہی نہیں گئی۔ اس لیے تقریباً ہر گھر میں پھلوں اور رنگوں کے نام جیسی بنیادی چیزوں سے لے کر سب کچھ انگریزی میں ہی سکھایا جاتا ہے۔ جو والدین اردو بولتے بھی ہیں وہاں بھی اب زیادہ تر بچہ کھانا 'فِنش‘ کر کے 'ہینڈز واش‘ ہی کرتا ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جدید دکھائی دینے کے لیے انگریزی بولنے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی اچھی انگریزی نہ بول سکے، خاص کر الفاظ کی ادائیگی انگریزوں جیسی نہ ہو تو اس کا تمسخر اڑانا بھی بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے ایک کیفے کی دو مالكان نے کیا اور اس ویڈیو کو خوب پھیلایا بھی۔
جب اردو کے فروغ کو کیا، بذاتِ خود اردو زبان کو پسِ پشت ڈال کر ترقی ہو سکتی ہے تو اس سے لگاؤ تو سراسر بے وقوفی ہی ہو گا؟ جب جین آسٹن اور شیکسپیئر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اشفاق احمد، فیض، بانو قدسیہ اور منٹو کا حوالہ تو موجوده نسل کے لیے کسی ہائی فائی کلچر کی ضمانت نہیں ہو سکتا۔ سارا کمال ہماری مہمان داری کا ہی نہیں، انگریزی زبان بھی ایک ملنسار بہو کی طرح ہر جگہ رچ بس گئی ہے، جیسے ہماری فلموں، ڈراموں، مزاح، بحث اور عام بات چیت میں۔
ساری زندگی فخریہ جملہ یہی سُننے کو مِلا کہ اس کی انگریزی بہت عُمده ہے۔ اردو کے متعلق تو ایسا کچھ کبھی سُننے میں نہیں آیا کہ فلاں اردو بہت اچھی بولتا ہے یا اس کا اردو کا ذخیرہ الفاظ کس قدر کثیر ہے۔ ترقی اور انگریزی کے اس گہرے تعلق کو سالوں دیکھنے کے بعد دھچکا تب لگا، جب تقریباً دس سال پہلے میں جرمنی منتقل ہوئی۔
کہنے کو جرمن قوم نے بہت اقتصادی اور معاشی ترقی کر لی ہے مگر درحقیقت بہت ہی 'دقیانوسی اور پینڈو‘ ہیں، انگریزی ہی نہیں بولتے۔ آج تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ سکولوں میں مادری زبان سے زیادہ بین الاقوامی زبان کو اہمیت دینا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی کی پڑھائی کے دوران زیادہ تر طلبأ کچھ عرصہ کسی دوسرے ملک میں گزارتے ہیں، جیسے امریکا، انگلینڈ، آسٹریلیا اور وہاں سے واپس آ کر بھی اپنی زبان ہی استعمال کرتے ہیں۔ اب ایسی بھی کیا محبت کہ کوئی سائن بورڈ تک انگریزی میں نظر نہیں آتا۔
الله بچائے ایسی اندھی عقیدت سے کہ فارغ اوقات میں کتابیں بھی جرمن پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ فلموں، ڈراموں تک کو جرمن ڈبنگ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی سے پوچھ لو کہ کیا آپ انگریزی بولتے ہیں تو کسی شرمندگی اور کھیسانے پن کے بغیر صرف 'نہیں بس تھوڑی بہت‘ جواب دے کر باقی بات جرمن میں کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، عجیب ڈِھیٹ قوم ہے۔
حال ہی میں پاکستانی اسکولوں میں کچھ مضامین کو اردو میں لازم قرار دینے پر والدین میں جو اضطراب پایا جاتا ہے، اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا، جب بھری محفل میں ایک بچی نے اپنی ماں سے آڑو مانگ لیا۔ ماں نے فوراً غصے اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا، ''بیٹا آڑو نہیں کہتے، Peach کہتے ہیں۔‘‘ اور کتنی ہی دیر تک بیچاری ماں سب کو صفائیاں دیتی رہی کہ گھر میں تو صرف انگریزی ہی بولی جاتی ہے، اس نے ضرور کسی پینڈو بچی سے سکول میں سن لیا ہو گا اور وہ جلد ہی پرنسپل سے شکایت کریں گی۔