کیا الیکٹرک بسیں پاکستان میں فضائی آلودگی کم کر سکتی ہیں؟
13 مارچ 2023کراچی کے راجا کامران کا کہنا ہے کہ اپنی موٹرسائیکل چھوڑ کر پاکستان میں پہلی مرتبہ متعارف کرائی گئی بجلی سے چلنے والی 'ای یا الیکٹرک بسوں' میں سفر کرنا ان کے لیے نہ صرف معاشی بلکہ صحت کے اعتبار سے بھی مفید ثابت ہوا ہے۔
پچاس سالہ کامران کو موٹرسائیکل پر سفر کرنے کی وجہ سے کمر میں درد رہتا تھا لیکن اب ان کا کہنا ہے، ''الیکٹرک بس سروس کے ہونے سے نہ صرف میرے ہر ہفتے کے سفر کے اخراجات میں کمی آئی ہے بلکہ یہ میری صحت کی بہتری میں بھی مددگار ثابت ہوئی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ اب وہ اپنے آپ کو کچھ حد تک فضائی آلودگی سے بھی محفوظ رکھ پاتے ہیں۔
ماحول دوست ’گرین کاریں‘، چین میں مانگ بڑھتی ہوئی
کراچی میں یہ بسیں سندھ حکومت نے آلودگی میں کمی کے لیے چلائی جانے والی ایک مہم کے تحت جنوری میں متعارف کرائی تھیں۔
کامران اس اقدام کو سراہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے ان بسوں کی تعداد فی الحال بہت کم ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ابتدائی طور پر اس طرح کی 50 بسیں فراہم کی گئی ہیں لیکن ان میں سے صرف 10 اس وقت زیر استعمال ہیں اور ان کی کم تعداد کی وجہ سے کبھی کبھی انہیں پون گھنٹے مطلوبہ بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
فضائی آلودگی اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے منصوبے
فضائی آلودگی پاکستان بھر میں ایک بڑا اور دیرپا مسئلہ رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی کمپنی آئی کیو ایئر کے مطابق 2021ء میں دنیا کے 118 آلودہ ترین ممالک میں سے پاکستان تیسرے نمبر پر تھا۔
اس قدر آلودہ ہوا کا ایک بڑا سبب گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں بھی ہے۔ پاکستان کی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق ملک میں کم از کم 40 فیصد آلودہ ہوا کی پیداوار کا سبب گاڑیاں ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں پاکستان میں کل 30.7 ملین گاڑیاں تھیں، جبکہ ان کی تعداد 2011ء میں قدرے کم، یعنی صرف 9.6 ملین تھی۔ملک میں گاڑیوں کی بڑھتی تعداد پر تشویش کے باعث حکام نے کچھ شہروں، مثلا پشاور اور کراچی میں ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
ان میں کراچی کے لیے فراہم کی جانے والی 50 ای بسز بھی شامل ہیں۔ ایسی ایک بس میں ایک وقت میں کم از کم 70 افراد سفر کر سکتے ہیں اور ایک دفعہ چارج ہونے کے بعد یہ 240 کلومیٹر تک چلائی جا سکتی ہے۔ ایسی پچاس بسیں 15 ملین ڈالر کے عوض حکومت اور ایک نجی کمپنی کی شراکت سے خریدی گئی ہیں۔ ان کے مابین طے پائے گئے معاہدے کے مطابق متعلقہ نجی کمپنی نے یہ بسیں خریدی ہیں اور انہیں آٹھ برس چلانے کے بعد سندھ کی صوبائی حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا۔
سندھ میں سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ عبدالحلیم شیخ نے روئٹرز کو بتایا کہ ایسی 100 اور بسوں کے حصول کے لیے صوبائی حکومت ایشیائی ترقیاتی بینک سے 30 ملین ڈالر قرض لینا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں فریقین کے مابین مذاکرات جاری ہیں۔
نومبر 2019ء میں حکومت پاکستان نے اگلے پانچ سال کے عرصے میں بجلی سے چلنے والی پانچ لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے اور ایک لاکھ الیکٹرک گاڑیاں، بسیں اور ٹرک ٹرانسپورٹ کے نظام میں شامل کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا تھا۔ لیکن اس وقت ملک میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کا ایک ہدف یہ یقینی بنانا بھی ہے کہ 2030ء تک پاکستان میں فروخت ہونے والی ایک تہائی گاڑیاں اور ٹرک اور نصف موٹرسائیکلیں اور بسیں بجلی سے چلنے والی ہوں۔
بالخصوص پشاور میں خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت پرانی بسوں کی جگہ ڈیزل اور بجلی سے چلنے والی ہائبرڈ بسیں متعارف کر رہی ہے۔ اسی طرح کراچی میں سندھ کی صوبائی حکومت پانی اور گائے کی گوبر سے خارج ہونے والی بائیو میتھین کے ذریعے چلنے والی 250 بسیں متعارف کر رہی ہے۔
آلودگی میں کمی کے 'غیر موثر' حکومتی اقدامات
لیکن تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں کیے جانے والے یہ اقدامات آلودگی میں کمی کے لیے ناکافی ہیں۔
انہی میں سے ایک انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی کراچی اربن لیب سے وابستہ محمد توحید کہتے ہیں ان اقدامات کی جگہ حکومت کو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد کم کرنے اور فضائی آلودگی کے اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
جرمنی میں الیکٹرک کاروں پر حکومتی سبسڈی بڑھا دی گئی
ان کا کہنا تھا، "ایک شخص جو اپنی دھواں اڑاتی گاڑی یا موٹرسائیکل پر کام پر جاتا ہے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ ماحول پر کیا ظلم کر رہا ہے۔"
ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والی دریا لیب سے منسلک یاسر حسین کا ماننا ہے کہ کراچی میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے 150 نہیں بلکہ کم از کم 1,500 الیکٹرک بسیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے حصول کے لیے حکومت کو آسان شرائط پر قرض دینے کی بھی تجویز دی۔
م ا / ع ا (روئٹرز)