1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

کیا برطانیہ اور نازیوں کے درمیان مراسم تھے؟

23 ستمبر 2022

ایک نئی کتاب میں ماضی میں نازیوں اور برطانیہ کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ کتاب یہ بھی واضح کرتی ہے کہ آج کی جمہوریت بھی کس قدر خطرات کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/4HGKu
Mitford Schwestern Unity, Diana and Nancy
تصویر: Mary Evans Picture Library/picture alliance

کوئی بھی شخص جو برطانیہ کی 1930 کی دہائی کی انتہائی دائیں بازو اور فاشسٹ تحریکوں پر غور کرتا ہے، اسے  یونٹی مٹ فورڈ اور اوسولڈ موزلی کے نام ضرور دکھائی دیتے ہیں۔

یہودی دانشور کا ہٹلر سے موازنہ، میکسیکن صدر تنقید کی زد میں

زیلنیسکی کے ہٹلر سے موازنے پر بینیٹ نے پوٹن کی 'معذرت' قبول کرلی، اسرائیل

ہٹلر کی گرل فرینڈ کے حوالے سے مشہور یونٹی مٹ فورڈ کی شخصیت کو ڈیوڈ پریس جونز نے 1977 میں شائع ہونے والی اپنی ایک کتاب "یونٹی مٹ فورڈ، این انکوائری ان ٹو ہر لائف اینڈ فرائولیٹی آف ایول" یا ڈیوڈ لائچفیلڈ کی سن 2014 میں چھپنے والی کتاب، "ہٹلرز ویلکرائی، دا انسینسرڈ بائیوگرافی آف یونٹی مٹ فورڈ" میں بحث کی گئی ہے۔

اوسولڈ موزلی سن 1932 سے 1940 تک برطانوی یونین آف فاشسٹس نامی تحریک کا سربراہ تھا اور اس کی تحریک بھی کئی کتابوں میں زیربحث رہی ہے، جس میں دو ہزار پانچ میں شائع ہونے والی کتاب "ہراہ فار دا بلیک شرٹس"، دو ہزار بیس میں شائع ہونے والی گراہم میکلِن کی کتاب، "ناکام رہنما، برطانوی انتہائی دائیں بازو کی تاریخ"، اور رچرڈ تھرلو کی کتاب، "برطانیہ میں فاشزم، اوسولڈ موزلی سے نیشنل فرنٹ کی بلیک شرٹس تک" شامل ہیں۔

امریکی یونیوسٹی "ییل" کی لیکچرار لورین ینگ کی تازہ کتاب، "ہٹلرز گرل، دی برٹش آریسٹوکریسی اینڈ تھرڈ رائش آن دا ایو آف سیکنڈ ورلڈ وار" لکھی ہے۔ اس کتاب میں بہت سا ایسا مواد بھی استعمال کیا گیا ہے جو پہلے استعمال نہیں ہوا۔

اس کتاب میں دائیں بازو کے برطانوی رہنماؤں اور نازی جرمنی کے درمیان تعلقات کے علاوہ آج کی برطانوی جمہوریت کو دائیں بازو کی جانب سے لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ینگ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آج بھی انیس سو تیس کی دہائی کی طرز پر جمہوریتیں کئی طرح کے چینجلز کا سامنا کر رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے ینگ کا کہنا تھا، "ہمیں دوسری عالمی جنگ، ہٹلر اور نازیوں سے متعلق اطلاعات کے ڈھیر کا سامنا ہے۔ مگر یہ کتاب یہ بتاتی ہے کہ آج جمہوریت کو 1930 کی طرز کے کیسے مسائل لاحق ہیں۔"

اس کتاب کی مصنفہ لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھا چکی ہیں جب کہ کئی بین الاقوامی فورمز بہ شمول اقوام متحدہ سیاسی مشیر کے بہ طور خدمات انجام دے چکی ہیں۔

انیس سو تیس کی دہائی کا برطانیہ

اس کتاب میں پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں مالیاتی اور سماجی خلا جیسے تاریخی پس منظر پر بحث کی گئی ہے،جو ہٹلر کے عروج کی وجہ بنا۔ اس کے بعد ینگ بیس کی دہائی میں برطانوی اشرافیہ کے فاشزم کی جانب جھکاؤ پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس کتاب کے مطابق اس وقت کی برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد اٹلی گئے تاکہ وہ فاشسٹوں کی تحریکوں کو دیکھ سکیں۔

اس کتاب میں یہ بھی درج ہے کہ کئی اہم برطانوی شخصیات نے نازیوں کے اذیتی مراکز کے دوروں کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ کتاب میں ملکہ الزبیتھ دوئم  کی انیس سو تیتیس کی اس ویڈیو کا بھی ذکر ہے، جب ان کی عمر فقط سات برس تھی، اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اس ویڈیو میں نازی سلیوٹ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ برطانوی ٹیبلوئیڈ میں شائع ہونے والی اس خبر پر شاہی خاندان کی جانب سے شدید برہمی ظاہر کی گئی تھی۔

اس کتاب میں ینگ یہ دلیل بھی دیتی ہیں کہ جمہوریت کو "پیدائشی حق" سمجھ کر برتنے کی بجائے اس کی قدر اور حفاظت کرنا ہو گی۔

مانسی گوپال کرشنن (ع ت/ ع ب)