شامی پناہ گزین ترکی چھوڑنے پرمجبور کیوں؟
28 مارچ 2024ہیومن رائٹس واچ کی جمعرات کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی شام میں سنگین انسانی صورتحال کے باوجود ترکی ہزاروں شامی باشندوں کو یا تو ملک بدرکررہا ہے یا ان پردباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر ترکی کے زیر قبضہ شامی علاقوں میں چلے جائیں گے۔
شام کے شمال میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے انقرہ کے خلاف یہ ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ متعدد رپورٹوں میں تازہ ترین رپورٹ ہے۔
شامی خانہ جنگی چودھویں سال میں داخل، تشدد میں اضافہ
ہیومین رائٹس واچ کے ویب پیج پر بتایا گیا ہے کہ تل ابیض میں واپس آنے والے شامیوں کی تعداد ، ترکی کے زیرقبضہ شمالی شام کے ایک دوردرازضلع میں جنوری تا جون دوہزار تئیس کے درمیان اس سے دگنی ہوگئی جتنی کہ اس سے ایک سال قبل یعنی دوہزار بائیس کے انہی مہینوں کے درمیان تھی ۔
شمالی شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ترکی، ہیومن رائٹس واچ
شام کے شمال میں ترکی کے ساتھ امریکہ اور روس کی فوجیں بھی تعینات ہیں۔ جنہوں نے کئی دراندازیوں کے بعد اب زمین کے کچھ حصے پرکنٹرول حاصل کرلیا ہے ۔
انقرہ تاہم شمالی شام میں اپنی افواج اور اتحادی گروپوں پرہیومن رائٹس واچ کی طرف سے لگائے گئے جرائم کے الزامات کو مسترد کرچکا ہے۔
شمالی شام کے جلاوطنوں کے ساتھ ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ میں کہا، ''ترک فورسز نے 2017ء کے بعد سے اب تک ہزاروں شامی پناہ گزینوں کو گرفتار کیا اور ملک بدر کیا۔ اکثر ان سے زبردستی کی جاتی اور انہیں رضاکارانہ واپسی کے فارم پر دستخط کروا کرواپس جانے پر مجبور کیا
یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے لیے ریکارڈ دس لاکھ درخواستیں
جاتا۔‘‘ ترک صدررجب طیب ایردوآن اس سے قبل کچھ شامی مہاجرین کو ترکی سے باہرشمالی شام میں محفوظ علاقوں میں آباد کرنے کے منصوبے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔
ترکی میں 3.1 ملین سے زیادہ شامی عارضی تحفظ کے تحت مقیم ہیں۔ جوانہیں جبری واپسی کے خلاف قانونی طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹراڈم کوگل نے کہا، ''محفوظ زونز بنانے کا ترکی کا عہد شام کے لوگوں کو کھوکھلا کررہا ہے جو خود کوغیرانسانی حالات سے بچانے کے لیے پرخطر سفرپرمجبورہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ''تل ابیض میں جلاوطن کیے جانے والے مہاجرین بنیادی ضروریات، جن میں چھت اور خوراک شامل ہے، سے بھی محروم ہیں۔‘‘
ف ن / ک م (اے ایف پی)