کیا زرداری ’سرپرائز‘ دے سکتے ہیں؟
3 اپریل 2023ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نےملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں میں جتنی تیزی سے قبولیت حاصل کی ہے۔ اس کے پیش نظر بعید نہیں کہ انہیں اگلے انتخابات کے بعد اہم ذمہ داری سونپ دی جائے۔پاکستان کے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر کالم نگار ڈاکٹڑ عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں کی توقعات شہباز شریف سے پوری نہیں ہو سکی ہیں اور وہ مریم نواز اور عمران خان سے خائف ہیں۔
عجلت میں منظور ہوا قانون: سیاسی مفادات یا عدالتی اصلاح
اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہے کہ مجھے اقتدار میں نہیں آنے دینا، عمران خان
ان کے بقول آصف علی زرداری کا امیج خراب ہے لیکن لوگوں کا ساتھ دینے کے حوالے سے ان کی ساکھ کافی بہتر ہے۔ ''پاکستان کے مقتدر حلقے نیشنل فنانس کمیشن، اٹھارھویں ترمیم اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے جو مشکل اور اہم فیصلے چاہتے ہیں انہیں عوام میں بھاری مقبولیت کے حامل عمرانکر سکتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے فاصلوں کی وجہ سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اب اگلا آپشن زرداری کا ہے جنہیں چھوٹے صوبوں کی قیادت کا اعتماد حاصل ہے اوروہ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عاصم کے بقول آصف علی زرداری پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے ان کی رائے درست ثابت ہوئی تھی اور سی پیک کے آغاز کے لیے ان کی کوششیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ''آصف زرداری نے پیچھے رہ کر جس طرح مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا ہے مجھے لگتا ہے کہ نئے سیٹ اپ میں چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتوں، الیکٹیبلز اور پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتوں کے ساتھ ساتھ اسے مسلم لیگ نون کی حمایت بھی میسر رہے گی۔ ‘‘
تجزیہ نگاروں کے بقول ابھی یہ واضح نہیں کہ مستقبل کے منظر نامے پر زرداری خود سامنے آئیں گے یا اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو سامنے لائیں گے۔ تجزیہ کار جاوید فاروقی کے بقول اڑسٹھ سالہ آصف علی زرداری عمر کے لحاظ سے نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ بے نظیر بھٹو سے بھی چھوٹے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں ان کی صحت ان کے لیے ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔
آصف علی زرداری آج کل دبئی میں موجود ہیں جہاں انہوں نے اپنا میڈیکل چیک اپ کروایا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان کی ایک آنکھ کی سرجری بھی ہوئی ہے اور وہ تیزی سے روبہ صحت ہونے کے بعد ہسپتال سے دبئی میں اپنے گھر منتقل ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت پاکستان واپس آ سکتے ہیں۔ انہیں دل، بلڈ پریشر اور پھیپھڑوں کی تکالیف کا بھی سامنا رہا ہے۔
تجزیہ کار جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری اس وقت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ سرگرم رابطوں میں ہیں۔ان کے بقول یہ صرف آصف علی زرداری ہی ہیں جو ملک کے موجودہ حکومتی منظر نامے کے آرکیٹیکٹ ہیں۔ انہوں نے جس طرح مسلم لیگ نون، جے یو آئی اور پی ڈی ایم کے دیگر جماعتوں کو اکاموڈیٹ کیا ہے، اس سے ان کی سیاسی مہارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جاوید فاروقی سمجھتے ہیں کہ آصف زرداری پاکستان کی سیاست کے زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہیں، اور اب ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کا بھی انہیں کافی تجربہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور عمران حکومت کی تبدیلی میں جو کردار ادا کیا تھا، اس سے ان کی جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق آصف زرداری کی شخصیت کا اہم پہلو مسائل کے حل کے لیے ان کی آوٹ آف باکس سوچ بھی ہے۔ وہ مبینہ طور پر جہاں پیسے سے کام ہو سکتا ہے وہاں پیسے کو استعمال کر لیتے ہیں کہیں قوانین کو نظر انداز کرکے صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے وہاں وہ آنکھیں بند کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔
یاد رہے آصف علی زرداری 26 جولائی 1955 کو پیدا ہوئے، ان کا تعلق بلوچ قبیلے سے ہے، وہ سندھ میں آباد ہیں۔ان کا آبائی علاقہ نواب شاہ (بے نظیر آباد) ہے۔ وہ ایک سندھی جاگیردار اور کاروباری شخصیت حاکم علی زرداری مرحوم کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ آصف زرداری نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی۔