کیا طالبان اپنی حکومت کابل سے قندھار منتقل کرنا چاہتے ہیں؟
12 جون 2023افغانستان کے حکمران طالبان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یواین ایس سی) کی اس حالیہ رپورٹ کو ''بے بنیاد اور جانبدار'' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے، جس میں افغان کی موجودہ انتظامیہ کو ''انتہائی غیر شمولیتی'' اور ''جابرانہ'' قرار دیا گیا تھا۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی بجٹ ساڑھے چار کے بجائے تین بلین ڈالر
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں یو این ایس سی کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی جانب سے افغانستان کی صورت حال پر ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کا گورننس ڈھانچہ ''انتہائی غیر شمولیتی، پشتون مرکوز اور ہر قسم کی اپوزیشن کے لیے ''جابرانہ'' نظام پر مبنی ہے۔
افغانستان میں جنگی جرائم کے الزامات: آسٹریلوی فوجی ہتک عزت کا مقدمہ ہار گیا
طالبان نے رپورٹ مسترد کردی
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ ''امارت اسلامیہ افغانستان، ان الزامات کو بے بنیاد اور افغانستان کے عوام کے ساتھ واضح دشمنی قرار دیتی ہے اور یہ گزشتہ 20 برسوں سے جاری بے بنیاد پروپیگنڈے کے ہی تسلسل ہیں۔''
طالبان اور ایرانی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں شدت کیوں؟
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ان کی حکومت اس بات کے لیے پر عزم ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی۔
خواتین کو طالبان سے کام کرنے کی اجازت مل جانے کی امید
انہوں نے مزید کہا کہ ''امارت اسلامیہ افغانستان میں تمام فیصلے اسلام کے شرعی رہنما خطوط کے مطابق، دو طرفہ نیز کثیر جہتی عزائم اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انتظامیہ مشترکہ خدشات کو دور کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ بات چیت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔''
مجاہد نے طالبان کے درمیان آپسی اختلافات سے متعلق ''الزامات'' کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ یہ بے بنیاد ہیں اور افغانوں سے ''واضح دشمنی'' کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''سلامتی کونسل کی طرف سے اس طرح کی جانبدارانہ اور بے بنیاد رپورٹس کی اشاعت سے افغانستان اور بین الاقوامی برادری میں امن و سلامتی کے قیام میں کوئی مدد نہیں ملتی، بلکہ اس سے لوگوں (افغانوں) کی تشویش میں اضافہ ہوتا ہے۔''
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کیا تھا؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی واپسی کا مطلب قندھار کے اقتدار کی کرسی کی اسی طرز کی واپسی ہے جیسا کہ 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران ہوا کرتا تھا۔ تاہم موجودہ حکومت کے مرکز کابل میں طالبان کے بعض سینیئر وزراء کے فیصلوں کی وجہ سے پرانے طریقہ کار پر عمل رک جاتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان گروپ اپنی اہم پالیسیوں، طاقت کی مرکزیت اور افغانستان میں مالی اور قدرتی وسائل کے کنٹرول کے حوالے سے اندرونی تنازعات سے لڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقتدار کے لیے جاری کشمکش ملک کی صورتحال کو مزید غیر مستحکم کر رہی ہے اور یہاں تک کہ حریف دھڑوں کے درمیان مسلح تصادم کے پھیلنے کا بھی اب ایک واضح خطرہ منڈلا رہا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں کابل میں مقیم کم از کم دو طالبان ترجمانوں کو جنوبی شہر قندھار منتقل ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس سے اقتدار کی منتقلی کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ طالبان اپنا دارالحکومت کابل سے جنوبی شہر قندھار منتقل کرنا چاہتے ہیں، جہاں سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ قیام کرتے ہیں۔
اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان سخت قوانین اور اسلامی ضوابط دوبارہ نافذ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے چھٹی جماعت سے آگے کی لڑکیوں اور خواتین کے اسکولوں میں جانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود طالبان حکام نے اب تک یہ نہیں کہا کہ وہ لڑکیوں کے لیے اسکول دوبارہ کھولیں گے۔
اس کے علاوہ طالبان اب تک ایک جامع حکومت تشکیل دینے اور اپوزیشن کو اقتدار میں حصہ دینے سے بھی انکار کرتے رہے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک نے ابھی تک ان کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)