کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سعودی عرب بدل رہا ہے؟
27 ستمبر 2017سعودی عرب میں ایک ایسا قانون رائج ہے، جس کے تحت خواتین کو کسی اہم یا پھر انتہائی معمولی سے کام کے لیے بھی گھر کے کسی مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ جیسے کہ اگر عورت کو کوئی طبی آپریشن کرانا ہے یا پھر اسے ملک سے باہر سفر کرنا ہے تو بھی اسے اپنے خاندان کے مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
سعودی عرب میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ کسی بھی طرح کا رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ایسا کرنے پر انہیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اس خلیجی ریاست میں ایک اور بڑی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ پہلی مرتبہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیم کے ’فیملی سیکشن‘ میں جا نے کی اجازت دی گئی۔
سعودی خواتین کے لیے اپنی پسند سے شادی کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اس ملک میں اسلامی تحقیق سے متعلق ایک طاقت ور کمیٹی نے فتویٰ جاری کیا ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سنی عورت شعیہ مرد یا کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والے مرد سے سے شادی نہ کرے۔
اس سال مئی میں سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان نے سرکاری دفاتر کو حکم دیا تھا کہ وہ خواتین کو مردوں کے اجازت نامے کے بغیر بھی نوکریاں دیں۔ سرکاری سطح پر خواتین کو نوکری حاصل کرنے کے لیے مرد کا اجازت نامہ نہیں چاہیے لیکن سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ کئی دفاتر خواتین کو نوکریاں دینے سے قبل ان کے گھر کے مردوں کی جانب سے اجازت نامہ مانگتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس خلیجی ریاست میں عورتوں کا برقعہ یا آبایا پہننا لازمی ہے۔