1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سعودی عرب بدل رہا ہے؟

بینش جاوید AFP
27 ستمبر 2017

سعودی خواتین کو  اپنے ملک میں گاڑی چلانے کی اجازت تو مل گئی ہے لیکن سماجی مبصرین کے مطابق اس قدامت پسند ملک میں اب بھی خواتین کو  انتہائی سخت اور امتیازی قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2knR4
Saudi Arabien Frauen Unterhaltung Konversation
تصویر: Getty Images/F.Nureldine

سعودی عرب میں ایک ایسا قانون رائج ہے، جس کے تحت خواتین کو کسی اہم یا پھر انتہائی معمولی سے کام کے لیے بھی گھر کے کسی مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ جیسے کہ اگر عورت کو کوئی طبی آپریشن کرانا ہے یا پھر اسے ملک سے باہر سفر کرنا ہے تو بھی اسے اپنے خاندان کے مرد کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

سعودی عرب میں اپنے خاندان کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ کسی بھی  طرح کا رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ایسا کرنے پر انہیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے اس خلیجی ریاست میں ایک اور بڑی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ پہلی مرتبہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیم کے ’فیملی سیکشن‘ میں جا نے کی اجازت دی گئی۔

سعودی خواتین کے لیے اپنی پسند سے شادی کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اس ملک میں اسلامی تحقیق سے متعلق ایک طاقت ور کمیٹی نے فتویٰ جاری کیا ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  سنی عورت شعیہ مرد یا کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والے مرد سے سے شادی نہ کرے۔

Saudi-Arabien- Frauen arbeiten für Call Center in Mekka
ایک سعودی خاتون کال سنٹر میں کام کر رہی ہےتصویر: Reuters/S. Salem

اس سال مئی میں سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان نے سرکاری دفاتر کو حکم دیا تھا کہ وہ  خواتین کو مردوں کے اجازت نامے کے بغیر بھی  نوکریاں دیں۔ سرکاری سطح پر خواتین کو نوکری حاصل کرنے کے لیے مرد کا اجازت نامہ نہیں چاہیے  لیکن سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ کئی دفاتر خواتین کو نوکریاں دینے سے قبل ان کے گھر کے مردوں کی جانب سے اجازت نامہ مانگتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس خلیجی ریاست  میں عورتوں کا برقعہ یا آبایا پہننا لازمی ہے۔

  

منی سکرٹ کا ’شور و شر‘