کیا مسلم لیگ ن کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے؟
14 جون 2018پاکستان مسلم لیگ نون کے میڈیا سیل کے چئیرمین اور جماعت کے رہنما مشاہد حسین سید نے ایک مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ان کی جماعت اقتدار میں آئی، تو ان کی سیاسی جماعت کو عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون میں ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرنے کے حامی موجود ہیں اور وہ مفاہمت بھی چاہتے ہیں۔
مشاہد حسین کے اس حالیہ بیان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی صحافی نصرت جاوید کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت یہ نہیں کہتی کہ وہ فوج کے خلاف یا اس کی مرضی کے خلاف کام کرے گی، ’’جب ریاست کا کاروبار چلانا ہوتا ہے تو فوج اور حکومت کے درمیان جو بھی مسائل ہوں، ان سے قطع نظر سمجھوتا تو کرنا پڑتا ہے تو یہ ان کی جانب سے ایک طرح سے حقیقت کا اظہار ہے۔ پھر یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ اگر ان کی حکومت بنے گی تو حکومت سازی اور حکومتی پالیسی میں فیصلہ کن کردار مسلم لیگ نون کے موجودہ صدر شہباز شریف کا ہو گا اور وہ ابتدا سے ہی کبھی دبے اور کبھی کھلے لفظوں میں کہتے رہے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے درمیان کشمکش کے خلاف ہیں اور باہمی مفاہمت کے ذریعے ہی ریاست کا کاروبار چلانا چاہتے ہیں۔‘‘
پاکستانی سیاست: نواز شریف کی تاعمر نااہلی کے بعد ہو گا کیا؟
مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر ڈیل کی خبریں
نصرت جاوید نے نواز شریف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں وقت کے ساتھ جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے مطابق نواز شریف کا روزمرہ کی پالیسی میں کردار کم ہوگا اور اگر ان کے نام کے ساتھ منسوب جماعت اقتدار میں آئے گی تو وہ وقت دینا چاہیں گے اس حکومت کو کہ وہ اپنے معاملات دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ بہتر کریں۔‘‘
صحافی آغا مسعود حسین کے مطابق،’’مشاہد حسین ایک اعتدال پسند آدمی ہیں اور بنیادی طور پر ان کو سول اور عسکری اسٹیبلیشمنٹ پسند کرتی ہے۔ یہی بات کی جاتی ہے کہ نواز شریف کو بنانے اور سیاسی حثیت دلوانے میں خود فوج کا ہاتھ رہا ہے تو اگر یہ بیانیہ آیا ہے تو میرے خیال سے یہ بلکل ٹھیک ہے۔‘‘
آغا مسعود کے مطابق اگر واقعی مسلم لیگ نون اس بیانیے پر قائم رہتی ہے تو شاید پاکستان میں بہت تبدیلی آسکتی ہے، ’’جہاں تک اقتدار میں آنے کا تعلق ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اتنی آسانی سے یہ بات ممکن ہو سکے گی کیونکہ پاکستان کے عوام مجموعی طور پر اب یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے جو اسٹینڈ لیا ہے اور بات کر رہے ہیں اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف وہ انکا اپنا نہیں بلکہ پڑوسی ملک کا بیانیہ ہے۔ لیکن اب مشاہد حسین کے بیان سے لگتا ہے کہ حالات اب اعتدال کی طرف جائیں گے۔ وہ (مسلم لیگ نون) اقتدار میں آئے یا نہ آئے، لیکن یہ بیانیہ عملی طور پر درست ہے۔‘‘
یہ بات بھی اہم ہے کہ اب سے چند ماہ قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات نے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں میں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ’سودے بازی‘ کی خبروں کو گرما دیا تھا تاہم ن لیگ کی جانب سے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔