1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ملالہ کو سوات بھی جانا چاہیے؟

فریداللہ خان، پشاور
29 مارچ 2018

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اپنے والدین اور خاندان کے دیگر افراد سمیت پاکستان پہنچ گئی ہیں، وہ چار روز تک پاکستان میں قیام کریں گی۔

https://p.dw.com/p/2vBcO
USA Malala Yousafzai in New York
تصویر: Reuters/S. Keith

ملالہ نے پاکستان آمد پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ملاقات کی جہاں ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب سے خطاب کے دوران ملالہ یوسفزئی آبدیدہ ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’آج بھی یقین نہیں آرہا کہ میں اپنے ملک میں ہوں۔ ڈاکٹروں کے کہنے پر علاج کے لیے برطانیہ گئی تھی۔ آج بیس سال کی ہوں لیکن کس قدر مشکلات کا سامنا کیا اس کا اندازہ ہے۔‘‘

بچیوں کی تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ملالہ

ملالہ یوسفزئی پاکستان پہنچ گئیں

’گل مکئی‘ ملالہ کی زندگی پر مبنی بھارتی فلم

’ہمیں خود کو ثابت کرنے کا موقع دیا جائے‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیم اور باالخصوص خواتین کی تعلیم کے شعبے میں کام کرنا چاہتی ہو‍ں اور اس کے لیے ملالہ فنڈز کے چھ ملین ڈالرز سے کام کا آغاز کیا ہے اور اسے جاری رکھوں گی۔‘‘

ملالہ یوسفزئی پر نو اکتوبر2012کو اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اسکول سے گھر جاری تھی ملالہ کو پشاورکے بعد راولپنڈی اور وہاں سے علاج کے لیے برطانیہ منتقل کیا تھا 2014میں ملالہ کو سترہ سال کی عمر میں نوبل انعام دیا گیا، جو یہ انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین خاتون ہیں۔

ملالہ یوسفزئی کی پاکستان آمد پر جہاں ملک بھر کے عوام خوشی کا اظہار کر رہے ہیں وہاں سوات کے بہت سے باشندے بھی ملالہ کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسفزئی سوات اور پاکستان کا فخر ہے۔ سوات میں دوران تعلیم ملالہ یوسفزئی کے استاد احمد شاہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’انہیں بے انتہا خوشی ہے کہ ملالہ نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ہر استاد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے شاگرد کوئی ایسا کام کریں جس پر ملک و قوم کو فخر ہو اور ملالہ یوسفزئی نے میری یہ خواہش پوری کی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہاکہ سوات میں دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے ایک تعلیم اور دوسرا امن کا قیام اور ملالہ نے ان دونوں کے لیے بہترین کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلع شانگلہ میں ملالہ فنڈز سے تعلیمی منصوبہ بھی جاری ہے۔ ’’اگر سیکورٹی کا مسئلہ نہ ہوا تو عین ممکن ہے کہ ملالہ یوسفزئی اسے دیکھنے کے لیے آئے۔‘‘

ملالہ یوسفزئی کے آبائی علاقے سوات کے خواتین بھی ملالہ کو پاکستان کا فخر قرار دیتی ہیں۔ سوات وویمن ڈویلپمنٹ کی سربراہ اور ضلع اسمبلی کی رکن انبیا بیگم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سوات ایک پسماندہ علاقہ ہے، جو سیلاب، زلزلے اور دہشت گردی سے متاثر رہا ہے۔ سوات کے عوام ان مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں اور ایسے میں ملالہ یوسفزئی جیسی بچیوں نے ملک کا نام دنیا میں روشن کیا ہے۔ ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اور انہیں ان کے شانہ بشانہ کام کرنے کا یقین دلاتے ہیں۔‘‘

انبیا بیگم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور باالخصوص سوات کی خواتین کو تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ ’’یہ تعلیم خواتین میں اعتماد پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔ خواتین کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ساتھ ہی تعلیم حاصل کرنے سے محروم خواتین کو کوئی ہنر سِکھانا چاہیے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں۔

جہاں سوات کی اکثریت ملالہ یوسفزئی کے چھ سال بعد پاکستان آمد پر خوش ہیں، وہاں سوات کے بعض لوگ ملالہ سے شکوہ بھی کرتے ہیں۔ سوات کے سماجی کارکن خورشید احمد خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’ملالہ پاکستان کی فخر اور سوات کی ایک بہادر سپوت ہے، جنہیں پاکستان آمد پر خوش امدید کہتے ہیں لیکن ان چھ سالوں میں سوات میں کوئی تعلیمی ادارہ نہ بن سکا۔ ملالہ کو یہاں تعلیم کے فروغ کے لیے اسکول،کالج اور میڈیکل کالج بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیئں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملالہ ایک بہادر لڑکی ہے اور وہ باالخصوص طالبات کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہے۔’’اگر وہ سوات اور شانگلہ کا دورہ بھی کرے تو یہاں کے بچیوں پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور وہ تعلیم کے حصول کی جانب راغب ہوں گی۔‘‘

یہی اطلاعات ہیں کہ ملالہ یوسفزئی اسلام آباد میں فوج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کریں گی جب کہ ان کے رشتہ دار ان سے ملنے کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں لیکن سوات کے عوام انہیں سوات  میں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔

سوات ضلعی اسمبلی کے رکن علی شاہ کے مطابق، ’’ملالہ یوسفزئی پورے پختونوں کا فخر ہیں۔ ان کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف والدین نے بھی اپنی بچیوں کو اسکول بھیجا ہے اور آج اگر آپ دیکھیں تو سوات میں طالبات کی انرولمنٹ میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہم ملالہ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور انہیں سوات آنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور سوات میں تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔‘‘