کیا ’نفس‘ جیت جائے گی؟
8 اکتوبر 2017نرگس آبیار کی ’نفس‘ ایک ایسی جنگ مخالف فلم ہے، جس میں اسلام پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ ان پر پہلے ہی اس فلم کے موضوع کے حوالے سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ آبیار ایک مصنفہ ہیں۔ 2004ء میں انہیں اپنے ہم وطن فلمساز بہم قبادی کی فلم ’’کچھوے اڑ سکتے ہیں‘‘ نے بہت متاثر کیا۔ اس موقع پرآبیار نے اپنی کتابوں پر فلمیں بنانے کا سوچا، ’’باقاعدہ فلمسازی کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے شروع میں سب کچھ اپنی سوچ کے مطابق کیا۔‘‘
ایران کے فلمساز اصغر فرہادی 2012 ء اور 2016ء میں بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کا آسکر جیت چکے ہیں۔ نرگس آبیار سے بھی کچھ ایسی ہی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔ چھیالیس سالہ آبیار نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے مجھے ابتدا میں اپنی فلموں کی کامیابی پر بہت حیرانی بھی ہوئی۔ ’نفس‘ میں تاہم انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ فلمی میدان میں بہت ترقی کر چکی ہیں۔
آسکر انعام یافتہ اداکارہ عالمی خیرسگالی سفیر برائے مہاجرین
آسکر ایوارڈ برائے بہترین ہدایتکار: غیر امریکیوں کا غلبہ
پاکستانی فلمساز شرمین عبید نے دوسرا آسکر ایوارڈ جیت لیا
اس فلم میں ایک چھوٹی بچی بہار کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ دمے کے مریض اپنے والد، مذہبی سوچ رکھنے والی اپنی دادی اور اپنے تین بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ خاندان غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس دوران 1970ء اور 1980ء کی دہائی کے دوران رونما ہونے والے سیاسی حالات نے بھی ان کی زندگی پر اثر ڈالا۔ اس کے علاوہ 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد اس خاندان نے معاشرے کو مذہبی ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور پھر ایران عراق جنگ شروع ہو گئی۔ آبیار کے بقول، ’’بہار کو سب سے زیادہ خوف اس بات کا تھا کہ کہیں ماں کے بعد وہ اپنے بیمار باپ کو بھی کھو نہ دے‘‘
انتہائی قدامت پسند مبلغ احمد علم الہدی کے بقول،’’اس فلم میں وہی سب کچھ شامل ہے، جو ہمارے مغربی دشمن دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
نرگس آبیار کو امید ہے کہ ان کی یہ کاوش آخری مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو وہ حجاب کے ساتھ ہی لاس اینجلس میں آسکر کی تقریب میں شرکت کریں گی، ’’حجاب کا تعلق مجھ سے اور میری ثقافت سے ہے۔ میں آسکر کی خاطر خود کو تبدیل نہیں کروں گی۔‘‘