اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تین بار وزیرِ اعظم اور اندرون ملک جیل میں سڑنے کے بجائے دو بار طویل عرصے کے لیے بیرونِ ملک رہنے والے نواز شریف اکیس اکتوبر کو لاہور میں اتریں گے۔ اس کے بعد یا تو وہ اعلان شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کر کے گھر یا جیل جائیں گے یا پھر ایئرپورٹ سے براہِ راست جیل جائیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اگر انہوں نے گیم کے طے شدہ ضوابط کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی اور انہیں ایک بار پھر البرٹ پنٹو کی طرح اچانک غصہ آ گیا اور وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی سابق حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے مبینہ کرداروں سابق جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید یا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ پر پہلے کی طرح برس پڑے تو ہو سکتا ہے کہ انصاف ملنے تک جیل میں ہی رہیں۔
حالانکہ مسلم لیگ نون اور نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی سے قانون کا سامنا کرنے آ رہے ہیں اور کوئی ڈیل شیل یا سودے بازی نہیں ہوئی۔ مگر نون لیگ کے سابق اتحادی اور پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ڈیل نہ ہونے یا نواز شریف کو کسی بھی طرح کی پیشگی یقین دہانیاں نہ کروانے کے بیانات پر ہرگز یقین نہیں۔
بقول اسپیکر نواز شریف کو اگرغیر مشروط ہی واپس آ کر مقدمات کا سامنا کرنا تھا تو عمران خان کے دور میں نہ سہی ان کے دور کے خاتمے کے بعد ہی پچھلے ڈیڑھ برس میں برادرِ خورد کی حکومت کے سائے میں واپس چلے آتے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈیل نہ ہوئی ہو مگر پچھلے چالیس برس میں پاکستانی سیاست میں اتنی ثالثیاں اور سودے بازیاں ہوئی ہیں کہ اب ہر چھوٹی بڑی پیش رفت پر شک ہوتا ہے کہ چولی کے پیچھے کیا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ مارچ انیس سو ستتر کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزبِ اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ پورا ملک منجمد ہو گیا۔ بیسیوں لوگ مظاہروں میں ہلاک ہوئے۔ دو شہروں میں مارشل لا لگ گیا اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فتوی دے دیا کہ دراصل پی این اے امریکی تائید سے ان کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور پی این اے والے بھٹو کے سر سے کم کسی بات پر راضی نہ تھے۔ ایسے موقع پر پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب نے انتھک ثالثی کی اور فریقین کو مذاکرات کے زریعے بحران کا حل نکالنے پر آمادہ کر لیا۔ سمجھوتہ ہو بھی گیا مگر جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی کو پورے نظام کا ٹھیلہ الٹ دیا۔
پاکستانی سیاست میں کھلی غیر ملکی ثالثی کی یہ پہلی مثال تھی۔
جب بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اس سے ایک ماہ پہلے ان کے بھائی شہباز شریف نے ہوا کا رخ بھانپ کے واشنگٹن کا دورہ کیا تاکہ امریکیوں پر زور دے سکیں کہ وہ پاکستانی فوجی قیادت کو کسی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے اپنا روایتی اثر و رسوخ استعمال کریں۔ مگر تختہ الٹنے سے ثابت ہوا کہ امریکیوں نے بھی بڑے بھائی کو بچانے کے لیے چھوٹے بھائی کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔حالانکہ پرویز مشرف نے کارگل میں بطور سپاہ سالار جو گل کھلائے تھے، امریکی اس حرکت پر خوش نہیں تھے۔
مگر مشرف کے اقتدار پر قبضے کے دو برس بعد جب نائن الیون ہو گیا تو مشرف صاحب امریکہ کی آنکھ کا تارہ ہو گئے، جس طرح ایوب خان سرد جنگ میں اڈے دینے پر اور ضیا االحق افغان جنگ میں کودنے پر امریکہ کی آنکھ کا تارہ بنے تھے۔
پرویز مشرف نے چونکہ اقتدار شریف خاندان سے چھینا تھا لہذا ان پر ہائی جیکنگ، بغاوت، کرپشن اور جانے کیا کیا مقدمات لاد دیے گئے۔ مگر پھر ایک چمتکار ہوا۔ سن دو ہزار کے دسمبر کی ایک رات ایک نجی سعودی طیارہ آیا اور نواز شریف کو اٹک کے قلعے سے ایئرپورٹ لایا گیا۔ دیگر اٹھارہ اہلِ خانہ سمیت طیارے میں بٹھایا گیا اور طیارہ جدہ پرواز کر گیا۔
یہ ڈیل شاہ فہد کے زور دینے پر ہوئی۔ اس سودے بازی کے عوض قیدی ( نواز شریف ) نے جیلر ( پرویز مشرف ) کو بطور گواہ سعودی انٹیلی جنس چیف کی تائید سے لکھ کے دیا کہ وہ دس برس تک پاکستان میں قدم نہیں رکھیں گے۔ اس کے بعد دونوں شریفین ( نواز و شہباز ) جدہ کے سرور پیلس میں اگلے سات برس خادمِ حرمین و شریفین کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
جب اکتوبر دو ہزار سات میں پرویز مشرف کی حکومت عدلیہ بحالی تحریک اور فوج میں اپنے بارے میں بڑھتی ہوئی اکتاہٹ کے سبب کمزور ہو گئی تو نواز شریف موقع غنیمت جان کے پاکستان آ گئے۔ اس بار انہیں سرکار نے چند ماہ پہلے کی طرح ڈنڈہ ڈولی کر کے واپس سعودی عرب نہیں بھیجا بلکہ حکومت کا رویہ کچھ یوں تھا کہ
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے ( انور دہلوی )
جس طرح انیس سو ستتر میں پی این اے کو بھٹو صاحب کے وعدوں پر اعتبار نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح دو ہزار سات میں دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلاوطن بے نظیر بھٹو کو جنرل پرویز مشرف پر اعتبار نہیں تھا۔ مگر مشرف کو سپاہ سالار کی وردی اترنے کے بعد ہر سابق آمر کی طرح ایک سیاسی صدر بننے کی شدید خواہش تھی۔ نواز شریف سے تو ان کا ٹانکا فٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔ مگر بے نظیر بھٹو سے وہ ایسی سیاسی ڈیل کے خواہش مند تھے، جس میں وہ صدر ہوں اور بے نظیر انتخابات جیت کر وزیرِ اعظم بن جائیں اور مشرف کی بنائی ہوئی مسلم لیگ قاف جونیئر پارٹنر ہو۔
چنانچہ پرویز مشرف نے امریکیوں سے رابطہ کیا اور وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے بالاخر بے نظیر بھٹو کو راضی کر لیا کہ اس وقت پاکستان کو جس خطرناک مذہبی انتہاپسندی سے خطرہ لاحق ہے اس کا تقاضا ہے کہ مشرف اور بے نظیر میں مفاہمت ہو۔ اس کے عوض پرویز مشرف قومی مصالحتی آرڈیننس ( این آر او ) جاری کرنے پر آمادہ تھے۔
یوں چار اکتوبر کو این آر او جاری ہو گیا۔ مگر جب اٹھارہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کراچی پہنچیں تو ان کے جلوس پر خود کش حملے میں ان کی پارٹی کے لگ بھگ ڈیڑھ سو کارکن جاں بحق ہو گئے۔ این آر او کو سپریم کورٹ نے بعد میں کالعدم قرار دے دیا۔مشرف نےآئین معطل کر کے ایمرجنسی لگا دی اور پھر ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو ایک خود کش حملے کا نشانہ بن گئیں۔
مشرف پر سے امریکہ، خلیجی دوستوں، فوجی قیادت سمیت سب نے ہاتھ اٹھا لیا۔ یوں پرویز مشرف اگلے آٹھ ماہ کے لیے علامتی صدر بن کے رھ گئے اور اٹھارہ اگست دو ہزار آٹھ کو آخری سلیوٹ لے کے کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ ( جسے تفصیلاً جاننا ہے وہ کونڈولیزا رائس کی کتاب ” نو ہائر آنر‘‘ پڑھ لے)۔
جب دو ہزار تیرہ میں مشرف کے دشمن نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو مشرف پر آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔ مشرف کو فوجی قیادت نے جیل تو نہیں جانے دیا البتہ حکومت نے ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگا دی۔
جنوری دو ہزار چودہ میں سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل اسلام آباد آئے اور چند روز بعد حکومت نے اچانک پرویز مشرف کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔ نو برس بعد ان کی پاکستان واپسی اس سال فروری میں تابوت میں بند ہو کے ہوئی۔
اس پس منظر میں اس کہانی پر یقین کرنا مشکل ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی ”فی سبیل اللہ‘‘ ہو رہی ہے۔چند ہفتوں اور مہینوں کی بات ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی کہ جو لوگ نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لائے تھے وہ عمران خان کو اتار کے نواز شریف کو کیوں لائے؟ یا پھر نواز شریف کو کب الہام ہوا کہ یہی واپسی کا وقت ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔