کیا نواز شریف مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرا سکیں گے؟
12 جون 2017سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستانی حکومت مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر بہت تشویش میں ہے، اسی لئے اسلام آباد کی کوشش ہے کہ یہ کشیدگی مزید نہ بڑھے۔ اس مسئلہ پر رائے دیتے ہوئے معروف دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اسلام آباد کو معلوم ہے کہ قطر کے دفاع کے لئے ترکی کے فوجی وہاں موجود ہیں جب کہ ہمارے سات ہزار فوجی سعودی عرب میں ہیں۔ اگر یہ کشیدگی واقعی کسی حقیقی تصادم کی طرف بڑھتی ہے، تو پاکستان کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔ اس تصادم کی صورت میں ہمارا سامنا ترکی سے بھی ہو سکتا ہے اور ہم تصادم کی صورت میں یہ بھی نہیں کر سکتے کہ اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور راحیل شریف کو بھی واپس بلائیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو سعودی عرب کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے، جس میں سر فہرست پاکستانی مزدوروں کی بے دخلی ہو سکتی ہے، جس سے ہماری معیشت کو سخت نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا وہ بین الاقوامی قد کاٹھ نہیں ہے کہ سعودی ان کا کہنا مانیں۔’’مجھے نہیں لگتا کہ سعودی میاں صاحب کی باتوں پر کان دھریں گے۔ سعودی عرب کے وزیرِ دفاع انتہائی جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور وہ میاں صاحب کو سننے کے موڈ میں نہیں ہیں لیکن پاکستان پھر بھی کوشش کرے گا کیونکہ اس کشیدگی سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اگر پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ نہ دیا تو لشکرِ طیبہ یا کوئی اور سعودی نواز جماعت پاکستان کے اندر مزاحمت نہیں کرے گی۔ اگر لشکرِ طیبہ نے ایسا کیا تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔‘‘
ان کا سعودی قطر کشیدگی کے حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ اوباما نے سعودی عرب کو نظر انداز کیا۔ اب اس کے جانے کے بعد سعودی عرب یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ خطے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے مالی وسائل بھی کم ہوتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ قطر پر دباو ڈال رہا ہے کہ دوحہ سعودی کمپنیوں کو ایل این جی کے پر کشش معاہدے دے اور قطر ایسا کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
سعودی قطری کشیدگی: پاکستان کے لیے صورت حال مشکل ہوگئی
پاکستان میں کئی اراکینِ پارلیمنٹ کے خیال میں پاکستان کو اس صورتِ حا ل میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے مشرق وسطیٰ کی صورتِ حا ل کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز شریف نے پارلیمنٹ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی۔ ہم نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمیں یمن کے مسئلے پر غیرجانبدار رہنا چاہیے لیکن ہم تو اس مسئلے پر جانبدار ہو گئے اور ہم نے راحیل شریف کو وہاں بھیج دیا ہے۔ اب ایک نئی صورتِ حال ہمارے سامنے آگئی ہے۔ ہمیں فوری طور پر راحیل شریف کو اور اگر ہم نے فوجی بھیجے ہیں، ان کو واپس بلانا چاہیے۔ ہمیں قطر اور سعودی عرب پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ ہم کوئی کرائے کے فوجی نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں نے ماضی میں دہشت گردوں کی حمایت کی اور اب مکافاتِ عمل سے گزر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا وزیر اعظم کے دورے کے کیا مقاصد ہیں؟ ہمیں اس کا کوئی علم نہیں۔’’ہمیں نہیں پتہ کہ نواز شریف وہاں کیوں گئے ہیں۔ نہ ہی انہوں نے ہمیں اس حوالے سے بتایا اور نہ ہی پارلیمنٹ کو مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا۔ ان کا یہ دورہ کامیاب بھی نہیں ہوگا۔ تا ہم ہم اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھائیں گے۔‘‘
مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرانے کے لیے پاکستان اور ترکی سرگرم
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان بھی اسی نظریے کے حامی ہیں کہ پاکستان کو غیر جانبدار رہنا چاہیے،’’ہمارے خیال میں پاکستان کو نہ سعودی عرب کی حمایت کرنی چاہیے اور نہ قطر کی۔ ہمیں مسلم ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس مسئلے میں فریق نہیں بننا چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا انہیں وزیرِ اعظم کے دورے کا مقصد نہیں پتا۔’’ہمیں نہیں بتایا گیا کہ نواز شریف وہاں کیوں گئے ہیں۔ انہوں نے نہ پارلیمنٹ کو بتایا اور نہ اس کو اعتماد میں لیا۔ نواز شریف خود ایک کمزور پوزیشن میں ہیں وہ کیا کوئی کردار ادا کریں گے لیکن پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ وہ ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اس مسئلے کو حل کرانے کے لئے ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
مسلم لیگ نون کی رہنما عظمیٰ بخاری نے وزیرِ اعظم کے دورے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے۔ ’’سعودی عرب اور قطر میں لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ قطر سے ہمارے ایل این جی کے معاہدے بھی ہیں، جو ہماری معیشت کے لئے بہت اہم ہیں۔ تو یہ تاثر غلط ہے کہ اسلام آباد کا جھکاو کسی ایک طرف ہے۔ ہمارے لئے سعودی عرب بھی اہم ہے لیکن ہم قطر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ، جس کے ساتھ ایران اور ترکی کھڑے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کو علاقائی اور بین الاقوامی رہنماوں نے مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا ہے، اس لئے نواز شریف وہاں گئے ہیں۔ ان کے دونوں شاہی خاندانوں سے بہتر تعلقات ہیں۔ امید ہے کوئی اچھا نتیجہ نکلے گا۔‘‘
انہوں نے کہا یہ صرف قطر او ر سعودی عرب کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ سارے مسلم ممالک اور دنیا کا ہے،’’اگر صورتِ حال کشید ہ رہی تو قطر، ایران اور ترکی ایک طرف ہوں گے اور سعودی عرب و اس کے اتحادی دوسری طرف۔ قطر کے ساتھ صرف علاقائی ممالک ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک سے بھی اس کے تعلقات ہیں۔ تو ایسی صورت میں دوسرے ممالک بھی اس مسئلے میں ملوث ہوجائیں گے۔‘‘