کیا واقعی امریکا خوابوں کی سر زمین ہے؟
4 اگست 2016وہ ایسا کون سا خیال ہے جو لفظ ’امریکا ‘ سن کر آپ کے ذہن میں سب سے پہلے آتا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام، فاسٹ فوڈ، تکبر، طاقت، ٹیکنالوجی یا پھر آزادی؟ امریکا سے باہر دوسرے ممالک کے لوگ شايد یہی سوچتے ہوں گے کہ امریکی قوم بے تحاشا برگر کھانے والی ايک ایسی قوم ہے جس کے پاس وسیع و عریض شاپنگ مالز ہیں اور ایک ایسی حکومت جو خود پر نازاں ہے۔ امریکا سے باہر بسنے والوں کو امریکی افراد دوستانہ رویے کے حامل، امیر اور سیدھے سادے لوگ نظر آتے ہیں۔ بخشش دینے میں فراخ دل، تخلیقی صلاحیتوں کے حامل اور مساوات، آزادی اور ٹیکنالوجی پاور کے علمبردار ہیں۔
تاہم بہت سے امریکیوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی قوم جس طور سے اب منقسم ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکا میں سپر پاور امریکا کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نسلیں امریکا سے مرعوب رہتی ہیں اور حسد بھی محسوس کرتی ہیں۔ امریکا نے ان کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہالی ووڈ،کوک، کامکس، فیس بک، انٹر نیٹ، اور آئی فون ان کے شب و روز میں پوری طرح داخل ہو چکے ہیں۔ امریکا کو شخصی آزادی اور مساوات کی ایسی سر زمین کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جہاں بھارتی تارکین وطن گوگل جیسی قد آور کمپنی کی سر براہی کر سکتے تھے اور ایک جنوبی افریقی شخص برقی کار کے حوالے سے لوگوں کے تخیلات پر حکومت کر سکتا تھا اور نائن الیون کے واقعے کے بعد تمام دنیا نے امریکا کا دکھ بھی بانٹا۔
اس کے باوجود امریکا کے مداحین محسوس کرتے ہیں کہ سپر پاور کے کردار کے تمام رنگ اتنے خوبصورت نہیں، جیسے کہ ویت نام، عراق اور دیگر ممالک میں امریکی فوجی مداخلت، اسلحے کی فروخت ذریعے پھیلائے جانے والے تشدد اور ہتھیار سے لیس رہنے کا حق دینا اور نسلی بنیادوں پر گہری اور غصہ پیدا کرنے والی تقسیم۔
اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں امریکا کی صدارت کے ایک امید وار کی طرف سے مسلمان اور میکسیکن پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی امریکا میں شخصی آزادی اور برابری کے دعووں پر سوال اٹھاتا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دنیا بھر میں عام لوگوں سے امریکا کے بارے میں ان کےخیالات پوچھے۔ ہوانا کی روزا ماسکو کہتی ہیں، ’’یہ دنیا کا سامراجی طاقت رکھنے والا ملک ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں اس کے سیاسی فیصلوں سے کوئی غرض نہیں پھر بھی میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ایک ایسا بڑا، طاقتور ملک ہے جو ہمیشہ ایسے ممالک پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کی حمایت نہ کرتے ہوں۔‘
‘ نئی دہلی کے بی ایس مہتا کی رائے میں، ’’امریکا میں سب کچھ ہائی ٹیک ہے۔‘‘ ماسکو کی اکیس سالہ طالبہ کسینیہ سمرٹوفا کہتی ہیں،’’امریکا کا سوچ کر مجھے کھانے کا خیال آتا ہے، فاسٹ فوڈ اور کوک۔ اس کی بنائی ہوئی کاریں اور سان فرانسسکو کا پل۔‘‘ ٹوکیو کے بیاسی سالہ ریٹائرڈ لیب ٹیکنیشن کہتے ہیں،’’ میرے ذہن میں امریکا کی تصویر ایک ایسے ملک کی ہے جو دنیا میں کہیں بھی جنگ کے لیے جانے کو تیار ہے۔‘‘