کیا پاکستان قبل از وقت انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے؟
26 جولائی 2022سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے صوبہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا ''انتخاب ہارنے‘‘ کے بعد پاکستان میں سیاسی انتشار مزید گہرا ہو گیا ہے۔ حالانکہ ایک ہفتہ قبل ہی پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔
عمران خان کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کو، جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ قاف سے ہے، 186 ووٹ ملے لیکن پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کے 10 ووٹ مسترد کر دیے۔ اس طرح وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز 179 ووٹ لے کر وزارت عظمیٰ کا عہدہ بچانے میں کامیاب رہے۔
عمران خان نے اس شکست کو ''مینڈیٹ کی چوری‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنے حامیوں کو اس کے خلاف احتجاج کا کہا۔ عمران خان کی جماعت کی گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بعد مقبولیت میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان کا مسلسل مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں مگر موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اعلان کر چکے ہیں کہ انتخابات 2023ء میں مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں گے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کی طرف سے ایک ٹویٹ میں لکھا گیا، ''آگے بڑھنے کا اب ایک ہی راستہ ہے کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ کوئی بھی اور راستہ ملک میں سیاسی افرا تفری اور مزید معاشی بے یقینی کا سبب بنے گا۔‘‘
کیا قبل از وقت انتخابات استحکام لا سکیں گے؟
عمران خان، اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں سیاسی جلسے کر چکے ہیں، جن میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شرکت کرتی رہی ہے۔ ان جلسوں سے خطاب میں وہ دعوٰی کرتے رہے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت امریکی سربراہی میں ہونے والی ایک ''سازش کے ذریعے‘‘ پاکستان پر مسلط کی گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی رکن پارلیمان اور سابق پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''قبل از وقت انتخابات پی ٹی آئی کا کافی عرصے سے مطالبہ ہے، خاص طور پر جب پنجاب میں سیاسی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ تمام معاشی اشارے منفی ہیں اور آگے بڑھنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘
کچھ ماہرین بھی اسی رائے کے حامی ہیں۔ واشنگٹن میں قائم 'وُڈرو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز‘ سے وابستہ جنوبی ایشیا سے متعلق معاملات کے ماہر مائیکل کوگلمین کے مطابق، ''انتخابات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں لیکن اگر آزاد اور شفاف ہوتے ہیں تو۔‘‘
کوگلمین کا مزید کہنا ہے، ''اگر انتخابات کو قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے تو سیاسی بحران میں کمی آئے گی کیونکہ ایک جائز سمجھی جانے والی حکومت کی موجودگی استحکام کا سبب بنے گی اور معاشی بحران میں بھی کمی آئے گی کیونکہ حکومت سیاسی افراتفری سے آزاد ہو کر کام کر سکے گی۔ اور آئی ایم ایف سمیت مالی مدد کرنے والے بھی ایک مستحکم سیاسی حکومت کی صورت میں فنڈز کی فراہمی کے لیے زیادہ آمادہ ہوں گے۔‘‘
انتخابات کی صورت میں عمران خان کو بڑی کامیابی کی اُمید
نیلوفر صدیقی امریکہ کی سنی البانی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات کے امکانات زیادہ نظر آ رہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستانی تحریک انصاف کو کامیابی حاصل ہو گی، اگر انتخابات اسی برس منعقد ہوتے ہیں اور خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبوں میں۔ پی ٹی آئی رواں برس کے آغاز کے مقابلے میں تحریک عدم اعتماد کے بعد اب انتخابی حوالے سے زیادہ مضبوط ہے۔‘‘
کوگلمین کے بقول قبل از وقت انتخابات فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں مگر یہ بہت زیادہ جلدی بھی منعقد نہ کرائے جائیں، ''بھلے حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے میں جتنی بھی مشکل پیش آ رہی ہے، پھر بھی رواں برس کے اختتام تک موجود رہنے کی کوشش کرے گی، جب نئے فوجی سربراہ کی تقرری ہونا ہے۔ آرمی چیف کی طاقت کے پیش نظر یہ اہم معاملہ ہے اور موجودہ حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہے گی کہ نیا فوجی سربراہ عمران خان کی طرف جھکاؤ نہ رکھتا ہو۔‘‘
کوگلمین کا مزید کہنا ہے، ''عمران خان بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ لازمی نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست کے بارے میں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے اور سب سے اہم حیثیت فوج کو حاصل ہے۔ اگر عمران خان فوج کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے انتخابات میں ان کے نقطہ نظر کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
ملیکہ بخاری کو اس کا یقین ہے کہ موجود وزیر اعظم کو عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ ہے اسی لیے وہ جانتے بوجھتے انتخابات کو لٹکا رہے ہیں، ''شہباز شریف انتخابات کے اعلان میں تاخیر کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ انتہائی غیر مقبول ہیں اور عوام نے عمران خان کو حکومت کی تبدیلی کے ذریعے نکالنے کو رد کر دیا ہے اور پنجاب نے حالیہ ضمنی انتخابات میں شریف کو مسترد کر دیا ہے۔‘‘
سنی البانی یونیورسٹی کی نیلوفر صدیقی کا کہنا ہے کہ سیاسی افراتفری نے پاکستان کی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا ہے، ''عمران خان کے مؤثر بیانیے اور اقتصادی بحران نے حکومتی جماعتوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال نے معیشت کو مزید نقصان پہنچایا ہے اور یہ صورتحال جاری رہے گی۔ پھر اس کے ساتھ شدید موسم نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس صورتحال نے ملک کے انفراسٹرکچر اور حکومتی مسائل کو مزید واضح کر دیا ہے۔‘‘
ہارون جنجوعہ (ا ب ا/ا ا)