کیا پاکستان میں احتساب کا عمل جانبدار اور یکطرفہ ہے؟
17 اکتوبر 2018کئی سياسی حلقے شہاز شریف کی اس بات سے اتفاق کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ملک میں احستاب کا عمل جانبدار اور یکطرفہ ہے۔ ایوانِ زیریں میں قائدِ حزبِ اختلاف نے آج برسر اقتدار جماعت پاکستان تحريک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا اور وزير اعظم عمران خان کی پارٹی پر الزام لگایا کہ اس کا اور قومی احتساب بيورو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شہباز شريف کا دعویٰ تھا کہ وہ نیب اور پی ٹی آئی کے ’ناپاک اتحاد‘ کو سب کے سامنے لانے کے ليے اسمبلی میں آئے ہیں۔ انہوں نے نیب کو ’نیشنل بلیک میلنگ بیورو‘ کا عنوان دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے ان سے کہا ہے کہ وہ خواجہ آصف کے خلاف بیان ديں جس پر انہوں نے نیب کو کہا کہ وہ اس مقدمے پر سوال کریں، جس کی نيب تفتیش کر رہا ہے۔ شہباز شريف نے یہ بھی سوال کیا کہ شیخ رشید کو کیسے پتہ چل گیا تھا کہ وہ (شہباز شریف) جیل کی ہوا کھائیں گے۔ شہباز شریف کی تقریر نے اس تاثر کو تقویت دی کہ نیب کو حکومت مخالف حلقوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
نون لیگ کے رہنما اور سابق ترجمان حکومتِ پنجاب زعیم قادری نے اس تاثر کو صحیح قرار دیا کہ نیب غیر جانبدارنہ انداز میں کارروائی نہیں کر رہی۔ ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نیب کی کارروائیاں یکطرفہ ہیں۔ نیب کے حوالے سے شکوک و شبہات اس ليے بھی ہیں کہ عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ فلاں فلاں کو گرفتار کرائيں گے۔ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ وزير اعظم کے بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔گرفتاریوں سے پہلے بھر پور تحقیق ہونی چاہیے۔ اس طرح کی گرفتاری سے صرف سیاسی جماعتوں کو نقصان نہیں ہو رہا ہے بلکہ ملک میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، جس کا اثر ملک کی معیشت اور اسٹاک ایکسچینجوں پر بھی ہو رہا ہے۔‘‘
کئی ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما بھی نیب کو مطلوب ہیں، جیسے کہ سابق وزیرِ اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، وزیرِ بلدیات پنجاب علیم خان اور عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری لیکن ان میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ جبکہ ن لیگ کے رہنماؤں کو صرف الزامات کی بنیاد پر ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر سینیٹر طاہر بزنجو کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیب کا سارا زور ن لیگ کے خلاف ہے اور اس کے کئی اقدامات بلا جواز ہیں۔ ’’میرے خیال میں آشیانہ ہاوسنگ اسکیم میں شہباز شریف کے خلاف کسی بھی طرح سے مقدمہ نہیں بنتا۔ نہ حکومت کی زمین گئی اور نہ ہی سرکاری خزانے سے ایک پائی خرچ ہوئی۔ پھر شہباز کو اس مقدمے میں کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے؟ اسے سیاسی انتقام کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
نیب کی ان کارروائیوں کی وجہ سے کئی حلقے یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ نیب کو ختم کر کے کوئی متبادل ادارہ بنایا جائے کیونکہ انسدادِ رشوت ستانی کے اس ادارے نے طاقتور حلقوں کا احتساب کرنے کی کبھی جرات نہیں کی۔ کئی لوگ نیب کے چیئرمین کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نیب کے چیئرمین کو استعفیٰ دے دینا چاہیے اور انہیں سیاست دان بن جانا چاہیے کیونکہ وہ اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے ليے چلا رہے ہیں۔ نیب کی ڈوریں وہ لوگ کھینچ رہے ہیں جنہوں نے انتخابات کرائے اور ان میں دھاندلی بھی کرائی۔ نیب کی جگہ ایک کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے، جو نہ صرف سیاست دانوں بلکہ جرنيلوں، ججوں، بیوروکریٹس، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا بھی احتساب کرے۔‘‘
لیکن کچھ سیاست دانوں کے خیال میں نون لیگ احتساب سے بچنے کے ليے شور مچا رہی ہے۔ ان کے خیال میں اگر آج نیب کی کارکردگی بہت اچھی نہیں ہے تو اس کی بھی ذمہ دار نون لیگ خود ہی ہے۔ معروف سیاست دان اور سابق امیر جماعتِ اسلامی سید منور حسن کا کہنا ہے کہ چیزیں پہلے کے مقابلے میں بہتر ہو رہی ہیں۔ ’’یہ حکومت ابھی آئی ہے۔ ان کے ساتھ کئی لوگ ایسے ہیں جو بالکل نہ تجربہ کار ہیں۔ تو ان کو وقت دیا جانا چاہیے۔ نیب کی خراب کارکردگی کی ذمہ دار پی ٹی آئی نہیں بلکہ ن لیگ ہے۔ نواز شریف صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ وہ تین بار اقتدار میں رہے تو انہوں نے احتساب کے ليے کیا کوششیں کيں؟ میرے خیال میں احتساب کا عمل ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے اور اس میں مزید بہتری آئے گی۔ ذرا حکومت کو تھوڑا چلنے دیں۔‘‘