کیا پنڈی اور بلاول ہاؤس میں فاصلے بڑھ رہے ہیں؟
26 اگست 2023پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی اُس حکومت کا حصہ رہی، جس نے چند ہی مہینوں میں ریکارڈ اسٹیبلشمنٹ نواز قانون سازی کی لیکن اب کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ملک کی طاقتوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ان بڑھتے ہوئے فاصلوں کا ایک اشارہ جمعہ کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ہونے والی ایک پریس کانفرنس سے ہی ملتا ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء نیر بخاری اور دیگر نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے 90 دن میں الیکشن نہیں کروائے تو پاکستان پیپلز پارٹی قانونی راستہ بھی اختیار کر سکتی ہے۔
نوے دن کے انتخابات پر اختلاف
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس پریس کانفرنس میں پہلی مرتبہ یہ انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے مشترکہ مفادات کی کونسل میں نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کی حامی اس لیے بھری تھی کہ انہیں یقین دہانیاں کرائی گئی تھی کہ اس سے انتخابات میں التوا نہیں ہوگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مقبولیت کے پیش نظر نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہیں کہ انتخابات کو ملتوی کیا جانا چاہیے لیکن دوسری طرف سندھ میں اقتدار سے ہاتھ دھونے والی پاکستان پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ انتخابات فوری طور پر ہوں۔ پیپلز پارٹی کی سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق چیئر پرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ مری کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ انتخابات 90 دن کی آئینی مدت میں ہوں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا واحد مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات 90 دن کی آئینی مدت میں کرائے جائیں۔ ہماری سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے اور وہ بھی اس نقطہ نظر کی حامی تھی کہ 90 دن کے آئینی مدت میں انتخابات ہونے چاہییں۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا یہ رویہ جی ایچ کیو کی منشا کے خلاف ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اور یقیناً یہ مطالبہ دونوں کے درمیان ناراضگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘
مینڈیٹ سے تجاوز
خیال کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب ہیں اور موجودہ حکومت وہ کام کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے، جو اس کے مینڈیٹ میں نہیں ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو پارلیمنٹ کے طرف سے بنائے گئے قوانین کو دیکھی گی۔ شازیہ مری کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس پر تحفظات ہیں۔ '' ہمارے خیال میں موجودہ حکومت کو اس طرح کی کوئی کمیٹی نہیں بنانا چاہیے کیونکہ یہ اس کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس کی بنیادی آئینی ذمہ داری 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ہے اور اس کو اسی آئینی ذمہ داری تک محدود رہنا چاہیے۔‘‘
اختلاف کی دیگر وجوہات
کچھ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہپاکستان پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی وجہ صرف 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات ہی نہیں ہیں بلکہ ان اختلافات کی نوعیت اس سے زیادہ گہری ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار نوید حسین کا کہنا ہے پاکستان پیپلز پارٹی یہ امید کر رہی تھی کہ بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم بنایا جائے گا لیکن اب ان کی یہ امید پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' با اختیار حلقوں کا یہ خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اتنا تجربہ نہیں رکھتے کہ وہ کسی بحرانی کیفیت میں ملک کو سنبھال سکیں اور ان حلقوں کے خیال میں سابق وزیراعظم شہباز شریف وزارت اعظمٰی کی کرسی کے لیے سب سے موضوع ترین شخصیت ہیں۔‘‘
نوید حسین کا خیال ہے کہ اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں اعتماد کا فقدان بھی ہے۔ ''میرے خیال میں میمو گیٹ کبھی بھی بھلایا نہیں جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کیونکہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور اس میں بعض اراکین پارلیمنٹ ایسے ہیں جواسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پہ تنقید بھی کرتے ہیں اور مستقبل میں ایسی پالیسیوں کے لیے رکاوٹ بھی کھڑی کر سکتے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ لانا چاہتی ہو۔ اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار دے کر رسک نہیں لیا جا سکتا۔‘‘
نوید حسین کے مطابق جب پارلیمنٹ نے حال ہی میں مختلف مسائل پر قانون سازی کی، تو وہاں بھی رضا ربانی اور پیپلز پارٹی کی کچھ رہنماؤں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ ''اس روئیے کو طاقتور حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کی طرف سے پی ٹی آئی کی حمایت اور اس پر پی پی پی کی خاموشی کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس شہباز شریف نے یہ ثابت کیا کہ وہ عمران خان سے بھی زیادہاسٹیبلشمنٹ کے وفادار ہیں اور انہوں نے فخر سے اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات بیان کیے۔‘‘
'اچانک سب کچھ بدل گیا‘
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی کچھ مہینے پہلے تک واقعی یہ لگ رہا تھا کہ اگلی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کو دی جائے گی۔ جنوبی پنجاب سے روایتی سیاستدان اور بلوچستان سے بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پھر اچانک سب کچھ تبدیل ہو گیا اور ایسا لگتا ہے کہ طاقتور حلقے اب ہمیں وفاق یا دوسرے صوبوں میں حکومت میں آنے نہیں دینگے۔‘‘
مفادات کی لڑائی
بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان اور سابق وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی ان اختلافات کی نوعیت کو ایک انوکھے انداز میں دیکھتے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آصف علی زرداری پر بھروسہ نہیں کرتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسٹیبلشمنٹ کے لوگ آصف علی زرداری کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کی آنکھوں میں لالچ و طمع ہے اور وہ سب کچھ خود حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہاسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی خواہش ہے کہ اسے سب کچھ مل جائے تو اس لیے میں کہوں گا یہ صرف لالچ کی لڑائی ہے۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ سندھ میں افسران کے تبادلے اور عبوری سیٹ اپ میں پی پی پی کی نمائندگی نہ ہونا بھی پنڈی اور بلاول ہاؤس کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔